ڈاکڑ مطاہر شیخ مرحوم ، ایک پر اثر زندہ دل شخصیت
چہرے پر مسکراہٹ تو قدرت نے انہیں کیا خوب دی تھی۔برجستہ جواب دینے کی صلاحیت انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز رکھتی تھی۔جس زندہ دلی سے انہوں نے زندگی گزاری ،کینسر جیسے مرض سے بھی اسی جواں مردی سے مقابلہ کیا اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو، اس تکلیف کی شدت کو محسوس نہیں ہونے دیا اور محض 52 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔پروفیسر ڈاکٹرمطاہر شیخ مرحوم کا شمار جامعہ کراچی کے ان اسکالرز میں ہوتا ہے جو بہترین ماہرتعلیم ہونے کے ساتھ عالمی تعلقات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔پاکستان اور عالمی دنیا سے تعلقات ہوں یا اس سے متعلق واقعات ،ان کے تجزیوں میں تحقیق کے پہلو کے ساتھ حالات حاضرہ کی مکمل منظر کشی ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے مضمون پر مکمل دسترس ہونے کی وجہ سے وہ حالات حاضرہ پر ریکارڈ ہونے والے پروگراموں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔سوچتا تو یہ تھا کہ ان سے متعلق یادوں کو ان کی زندگی میں لکھتا جسے وہ پڑھتے ہوئے مسکراتے ،میری طرف دیکھتے اور اپنے مخصوص انداز میں زور سے ہنستے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2004 میں ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کا فائنل ایئر کاطالب علم تھا اور اپنے کلاس فیلوز ،فیصل حارث اور عمار علی یاسر کے ساتھ مل کر مختلف موضوعات پر ڈاکومنٹری بنایا کرتا تھا۔جامعہ کراچی میں "پھر ایسا کیوں ہوا " کے عنوان سے بننے والی پہلی ڈاکومنٹری ڈاکٹر مطاہر مرحوم کے ساتھ پیش آنے والے ایک افسوس ناک واقعہ پر بنی جس کے دوران مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ایک خوبصورت دل کے مالک ہیں۔ہوا کچھ یوں کہ ،ایک دن جامعہ کراچی میں ایک طلبہ تنظیم اپنے کسی پروگرام کیلیئے کلاسوں کو بند کرارہی تھی۔اسی طلبہ تنظیم کے کچھ طالب علم شعبہ عالمی تعلقات پہنچے جہاں ڈاکڑمطاہر شیخ اپنی کلاس لینے میں مصروف تھے۔طلبہ تنظیم کے ایک لڑکے نے ڈاکڑ صاحب سے فوری کلاس بند کرنے کا کہا۔عام طور پر ایسے حالات میں طلبہ تنظیم کے کارکن اپنی درخواست ٹیچر سے کرکے چلے جاتے تھے اور ٹیچر اپنے لیکچر کو جلد مکمل کرکے کلاس ختم کردیا کرتے تھے۔لیکن شاید اس دن تاریخ میں یہ تاریک لمحات لکھے جانے تھے کہ وہ لڑکا بضد ہوگیا کہ کلاس تو اسی وقت ختم کی جائے۔مطاہر صاحب مرحوم کا کہنا تھا کہ ان کے طالب علم کلاس میں موجود ہیں اور انہیں اپنا لیکچرسمیٹنے میں چند منٹ لگیں گے۔لیکن ان میں سے ایک لڑکا ، جو کہ جامعات کی طلبہ تنظیموں کی بنیادی تربیت سے ناواقف تھا، جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ استاد اور تعلیم کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ مہذب معاشرے میں گفتگو کے کیا آداب ہوتے ہیں۔ اس لڑکے نے ایک نہ سنی اور تمام آداب ایک طرف رکھ کر مطاہر صاحب مرحوم پر ہاتھ اٹھادیا۔اس کے بعد جیسے جامعہ کراچی کے تمام ہی طالب علموں کے سر شرم سے جھک گئے۔ہر ایک کی زبان پر صرف ایک ہی سوال تھا کہ ایک ایسا استاد جو اس قدر ہر دل عزیز شخصیت ہو جو اپنے ہر عمل اور بات چیت میں احتیاط سے کام لے۔آخر ایسا کیا ہوا جو اس دن استاد اور طالب علم کے رشتے میں یہ دراڑ پڑی۔ ان دنوں یہ جامعہ کراچی میں ایک ایسا موضوع بن گیا تھا جس کے بارے میں تمام ہی حلقوں میں بات ہورہی تھی۔میرے لیئے "پھر ایسا کیوں ہوا۔۔۔"کی ڈاکومنٹری سیریز کیلیئے ایک دلچسپ موضوع تھا جس میں حالات حاضرہ کے ساتھ استاد اور شاگرد کے رشتے پر پڑنے والے سماجی اور نفسیاتی اثرات کو جانچا جائے۔
اس کے ساتھ یہ ایسا موقع تھا جس میں لوگوں کیلیئے مخصوص حالات اور رویوں کی تبدیلیوں کے بارے میں آگہی فراہم کی جاسکتی تھی ‘اس موضوع کو چننے کے بعد جو سب سے بڑا سوال ہمارے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا کہ آخر ایک ایسے افسوس ناک واقعہ میں جس کے ایک کردار ڈاکٹر صاحب خود ہوں کیا یہ ممکن ہوگا کہ وہ ایک ٹی وی انٹرویو دینے کے لیئے مان جائیں ؟۔ بہرحال ہم نے ڈاکڑ مطاہر شیخ مرحوم سے ملنے کا پروگرام بنایا۔وقت ظہر کے بعد کا ڈاکٹر صاحب سے طے کیا انٹرویو کے دوران کسی بھی سوال کے جواب پر میں نے ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی۔ہر سوال کے جواب میں وہ پہلے سے زیادہ با اثر دکھائی دیئے۔موضوع جتنا حساس تھا اتنا ہی وہ باکمال شخص اپنی گفتگو سے جذبات اور احساس کو ہٹھا کر منطقی جواب دیتا رہا۔انٹرویو کے بعد بھی ہم کافی دیر تک ان سے گفتگو کرتے رہے جس میں انہوں نے اسی واقعہ کے کچھ دوسرے پہلووں پر روشنی ڈالی ،جس پر میں نے برجستہ کہا کہ "سر آپ نے یہ آن ریکارڈ کیوں نہیں کہا؟۔انہوں نے جواب دیا کہ "میرا منصب مجھے ان تمام ذاتیات سے بلند رکھتا ہے "اس دن میں نے ذرائع ابلاغ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے "آف دی ریکارڈ " اور "آن دی ریکارڈ" گفتگو کے فرق کا عملی سبق حاصل کیا۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ ایک با کردار اور باعمل شہری ہونے کے ناطے ذاتیات اور تعصب سے بالاتر ہو کر معاشرے کا ایک کارآمد فرد کیسے بنا جاسکتا ہے۔کچھ عرصے پہلے اسٹاف کلب میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تمہاری ڈی وی ڈی اب بھی کبھی کبھی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیئے دیکھ لیتا ہوں۔میرے دوست یہ کہتے ہیں کہ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے دوستی کرو گے تو جلد دنیا میں اکیلے رہ جاو گئے۔مطاہر صاحب مرحوم کے جانے کے بعد دل سے یہ آواز آتی ہے کہ "زندگی سو برس کی سہی، زندگی کا بھروسہ نہیں "