واشنگٹن (این این آئی) تجزیہ کاروں لیری گڈسن ،وینڈرل نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان نے شہری علاقوں میں اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں ۔ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل نے اختلافات کو گہرا کر دیا۔ خانہ جنگی چھڑنے والی ہے۔ یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن نے امریکی ریڈیو کو بتایا کہ موجودہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہ آنے کی وجہ سے اس خونریزی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے۔ امریکی کانگریس کے سامنے ایڈمرل مائیک مولن نے بھی سول وار کے امکان کے بارے میں انتباہ کیا، اگر صدر حامد کرزئی اپنی حکومت میں بے تحاشا کرپشن پر قابو نہیں پاتے۔ حملوں کی حالیہ لہر سے بہت سے لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق خصوصی نمائندے فرانسس وینڈرول کہتے ہیں کہ مصالحت کا عمل ختم تو نہیں ہوا لیکن وہ نزع کے عالم میں ضرور ہے۔ ربانی کے قتل نے نسلی اور علاقائی اختلافات کو اور گہرا کر دیا ہے اور مصالحت کا عمل انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ شمال کے لوگوں کو یقین پختہ ہو گیا ہے کہ طالبان ان کے خلاف ہیں، اور ان کے ساتھ مصالحت نہیں ہو سکتی۔ وینڈرل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو‘ افغانستان سے چلے جائیں تا کہ وہ اپنی کارروائی شروع کریں۔ پاکستان علاقے میں ایسا متنازعہ کردار ادا کر رہا ہے جس سے افغانستان کا مستقبل کا لائحہ عمل کسی نہ کسی طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ صدر حامد کرزئی پاکستان کے قدیمی حریف‘ بھارت کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کے سمجھوتے پر دستخط کرنے کےلئے نئی دہلی پہنچ گئے۔ فرانسس وینڈرل کو تشویش ہے کہ صدر کرزئی کے ان اقدامات سے ایسا نہیں ہو گا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات سے لا تعلق ہو جائے بلکہ وہ وہاں زیادہ مہم جوئی کی راہ اختیار کرے گا۔ میرے خِیال میں اس دورے سے پاکستان کے اس خوف کو تقویت ملے گی کہ بھارت اور افغانستان اس کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور اگر یہ صحیح ہے کہ افغانستان اپنی فوج اور پولیس کےلئے بھارتی ٹرینر قبول کر رہا ہے، تو یہ اچھا نہیں ہو گا کیوں کہ یہ پاکستان کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہو گا۔ وینڈرل کی تجویز یہ ہے کہ ایک چیز جس سے پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ترغیب ہو سکتی ہے یہ ہے کہ امریکہ بھارت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ آنے والے مذاکرات میں بھارت اور پاکستان کے دو طرفہ مسائل، خاص طور سے کشمیر کے متنازع علاقے کے بارے میں زیادہ مثبت رویہ اختیار کرے۔ لیکن کشمیر کا مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024