الحمدللہ چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ نے ”فریاد ٹیچر ڈے“ 5-10-11 میں شامل پروفیسر صاحبان کی ”نوائے بیکساں“ سن لی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کو عدالت طلب کر لیا۔ پنجاب کے 26 بلکہ تمام کالجز کے اساتذہ نے منتخب ایپلا (پروفیسرز اور لیکچرز ایسوسی ایشن) کے صدر زاہد شیخ کی قیادت میں مظاہرہ کیا او کہا کہ پنجاب ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ (BD) میں کالج کے اندر BOG کے قیام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے۔ مقدمے میں متاثرہ اساتذہ، طلبہ اور BOG کی نمائندہ سرکار پارٹیاں ہیں۔ یہ بات دوران سماعت طے ہوئی کہ مذکورہ کالجز میں 4 سالہ BS کی تدریس جاری رکھی جائے۔ اساتذہ اور طلبہ کو احتجاج اور مظاہرے سے روک دیا گیا تاکہ BS کے طلبہ کا تدریسی نقصان نہ ہو جبکہ عدالت نے سرکار کو بھی BOG کے تحت مزید انتظامی سرگرمیوں سے منع کر دیا تھا۔ اس دوران سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کیلئے ستمبر میں حکم نامہ (نوٹیفکیشن) جاری کیا کہ متعلقہ 26 کالجز کے ٹیچنگ سٹاف (پروفیسرز اور لیکچررز) کی تنخواہیں اے جی آفس، پنجاب سے بند کر دی جائیں اور فی الحال سہ ماہی بنیاد پر مذکورہ کالجز کے پرنسپل کی صوابدید پر دے دی جائیں جبکہ متعلقہ پرنسپل صاحبان بحیثیت عہدہ BOG کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ علاوہ ازیں پرنسپلز کو مذکورہ کالجز کی نجکاری کے تناظر میں آمدنی اور اخراجات کی بجٹ سازی کا عندیہ بھی دے دیا۔ دانش مندی اور عملی سہولت کا تقاضا تھا کہ مذکورہ BOG ادارے تجربہ کار سینئر سرکاری سٹاف کو نعمت سمجھتے اور یہ مفت کی نعمت تھی جن کے سارے اخراجات پنجاب حکومت کے ذمے تھے مگر معاملہ برعکس ہے۔
سیکرٹری موصوف یا پنجاب حکومت کا مذکورہ حکم نامہ اخلاقی بددیانتی اور عدالتی احترام سے بے اعتنائی کا اظہار بھی ہے۔ سیکرٹری موصوف بھی کالج اساتذہ کی طرح سرکاری ملازم ہیں۔ اگر سرکاری ملازمین کو Options دیئے بغیر بیک قلم پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کر دیا جائے تو یہ زیادتی ہے اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ اس ضمن میں عدالت عالیہ مظلوم اساتذہ کرام کی فریاد رسی کرے۔
لاہور کے 3 بوائز اور 3 گرلز کالجز کو BOG کے ماتحت کیا گیا ہے۔ مذکورہ کالجز کے ٹیچنگ سٹاف کی اکثریت نے پرنسپل صاحبان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت تنخواہوں کے چیک لینے سے انکار اور احتراز کیا ہے۔ عدالت عالیہ سے التماس ہے کہ سرکاری سٹاف کی تنخواہیں واپس اے جی آفس کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے سپرد کی جائیں کیونکہ اساتذہ کرام کے مالی معاملات سرکاری ادارے اے جی پنجاب کے پاس رہنے چاہئیں اس لئے کہ یہاں اساتذہ کی پنشن، پروموشن، سالانہ انکریمنٹ اور اضافہ، جی پی فنڈ، بینوویلنٹ فنڈ، قرضے (لون) ، انکم ٹیکس اور PGEHCS وغیرہ کی کٹوتی اور ریکارڈ کی رکھوالی، Maintenance آسان اور یکجا ہے وگرنہ سارا ریکارڈ تتربتر ہو جائے گا۔ ریکارڈ رکھنے میں جو مہارت اے جی آفس کے افسران اور عملے کو حاصل ہے وہ ڈیپوٹیشن پر حاصل کئے گئے دو چار کلرکوں سے پوری کرنا مشکل ہے۔ نیز اے جی آفس کا سٹاف پرانا اور تجربہ کار ہے، اس کے وسائل زیادہ ہیں اور یہ اے جی آفس ملازمین کیلئے بروقت اور ازخود سہولت پیدا کرتا ہے جس سے ملازمین دقت اور پریشانی سے بچ جاتے ہیں۔
لاہور میں جی سی یو BOG کی کارکردگی کا بہترین ماڈل ہے جہاں سرکاری اساتذہ رفتہ رفتہ مالی و انتظامی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر نکل گئے یا نکال دیئے گئے کیونکہ بعض سینئر اساتذہ جی سی یو کے نئے دین دشمن سیکولر نصاب کے ناقد بھی تھے۔ علاوہ ازیں جی سی یو یا دیگر BOG اداروں نے ششماہی (6 ماہ) ملازمت کی بنیاد پر معمولی معاوضے یا روزانہ اجرت اصول پر نئے اساتذہ کی کنٹریکٹ پر بھرتی کی اور کام چلایا، نیز ان BOG اداروں نے اخراجات پورے کرنے کیلئے طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کیا۔ ان امور کے باعث اکثر غریب طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے اور اساتذہ بے چین اور غیر مطمئن ہو گئے۔ BOG کے ماتحت کام کرنے والے اساتذہ کرام کو اپنے سرکاری دستاویزات کو اے جی آفس میں ازخود درست اور اپ ڈیٹ (Update) کرانا پڑتا تھا کیونکہ BOG کی ترجیحات میں سرکاری اساتذہ کی بھرتی اور آسانی نہیں تھی۔ دستاویزات کی درستی اور اپ ڈیٹ کرانے کے دوران اے جی آفس اور BOG آفس کے درمیان عام طور پر ایک ماہ کی تاخیر رہتی ہے جس سے مزید کئی پیچیدگیاں اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔
اساتذہ کرام قوم کے معمار ہیں اور تعلیمی ادارے پاکستان ساز فیکٹریاں ہیں۔ عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ وہ نجی اور مذکورہ اداروں کے نصاب، نظام، انتظام اور ذریعہ تعلیم کی چھان بین بھی کرے۔ اردو زبان کی تحریک نے مسلم لیگ بنائی جو تحریک و قیام پاکستان کا سبب بنی۔ پاکستانی مسلمانوں کی قومی و ملی غفلت نے سقوط ڈھاکہ (16 دسمبر 1971ئ) کا دن دکھایا جس میں مشرقی پاکستان کے غیر مسلم ہندو پرائمری اساتذہ کا کلیدی کردار تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری نے تعلیم کو تجارت بنا دیا۔ اس وقت غیر ملکی تعلیمی امداد اور اہداف کا بھی پاکستانی بن کر جائزہ لینا چاہئے۔ تعلیم کی نجکاری ترقی یافتہ ممالک میں مفید مگر ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں نقصان دہ ہے۔
سیکرٹری موصوف یا پنجاب حکومت کا مذکورہ حکم نامہ اخلاقی بددیانتی اور عدالتی احترام سے بے اعتنائی کا اظہار بھی ہے۔ سیکرٹری موصوف بھی کالج اساتذہ کی طرح سرکاری ملازم ہیں۔ اگر سرکاری ملازمین کو Options دیئے بغیر بیک قلم پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کر دیا جائے تو یہ زیادتی ہے اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ اس ضمن میں عدالت عالیہ مظلوم اساتذہ کرام کی فریاد رسی کرے۔
لاہور کے 3 بوائز اور 3 گرلز کالجز کو BOG کے ماتحت کیا گیا ہے۔ مذکورہ کالجز کے ٹیچنگ سٹاف کی اکثریت نے پرنسپل صاحبان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت تنخواہوں کے چیک لینے سے انکار اور احتراز کیا ہے۔ عدالت عالیہ سے التماس ہے کہ سرکاری سٹاف کی تنخواہیں واپس اے جی آفس کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے سپرد کی جائیں کیونکہ اساتذہ کرام کے مالی معاملات سرکاری ادارے اے جی پنجاب کے پاس رہنے چاہئیں اس لئے کہ یہاں اساتذہ کی پنشن، پروموشن، سالانہ انکریمنٹ اور اضافہ، جی پی فنڈ، بینوویلنٹ فنڈ، قرضے (لون) ، انکم ٹیکس اور PGEHCS وغیرہ کی کٹوتی اور ریکارڈ کی رکھوالی، Maintenance آسان اور یکجا ہے وگرنہ سارا ریکارڈ تتربتر ہو جائے گا۔ ریکارڈ رکھنے میں جو مہارت اے جی آفس کے افسران اور عملے کو حاصل ہے وہ ڈیپوٹیشن پر حاصل کئے گئے دو چار کلرکوں سے پوری کرنا مشکل ہے۔ نیز اے جی آفس کا سٹاف پرانا اور تجربہ کار ہے، اس کے وسائل زیادہ ہیں اور یہ اے جی آفس ملازمین کیلئے بروقت اور ازخود سہولت پیدا کرتا ہے جس سے ملازمین دقت اور پریشانی سے بچ جاتے ہیں۔
لاہور میں جی سی یو BOG کی کارکردگی کا بہترین ماڈل ہے جہاں سرکاری اساتذہ رفتہ رفتہ مالی و انتظامی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر نکل گئے یا نکال دیئے گئے کیونکہ بعض سینئر اساتذہ جی سی یو کے نئے دین دشمن سیکولر نصاب کے ناقد بھی تھے۔ علاوہ ازیں جی سی یو یا دیگر BOG اداروں نے ششماہی (6 ماہ) ملازمت کی بنیاد پر معمولی معاوضے یا روزانہ اجرت اصول پر نئے اساتذہ کی کنٹریکٹ پر بھرتی کی اور کام چلایا، نیز ان BOG اداروں نے اخراجات پورے کرنے کیلئے طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کیا۔ ان امور کے باعث اکثر غریب طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے اور اساتذہ بے چین اور غیر مطمئن ہو گئے۔ BOG کے ماتحت کام کرنے والے اساتذہ کرام کو اپنے سرکاری دستاویزات کو اے جی آفس میں ازخود درست اور اپ ڈیٹ (Update) کرانا پڑتا تھا کیونکہ BOG کی ترجیحات میں سرکاری اساتذہ کی بھرتی اور آسانی نہیں تھی۔ دستاویزات کی درستی اور اپ ڈیٹ کرانے کے دوران اے جی آفس اور BOG آفس کے درمیان عام طور پر ایک ماہ کی تاخیر رہتی ہے جس سے مزید کئی پیچیدگیاں اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔
اساتذہ کرام قوم کے معمار ہیں اور تعلیمی ادارے پاکستان ساز فیکٹریاں ہیں۔ عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ وہ نجی اور مذکورہ اداروں کے نصاب، نظام، انتظام اور ذریعہ تعلیم کی چھان بین بھی کرے۔ اردو زبان کی تحریک نے مسلم لیگ بنائی جو تحریک و قیام پاکستان کا سبب بنی۔ پاکستانی مسلمانوں کی قومی و ملی غفلت نے سقوط ڈھاکہ (16 دسمبر 1971ئ) کا دن دکھایا جس میں مشرقی پاکستان کے غیر مسلم ہندو پرائمری اساتذہ کا کلیدی کردار تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری نے تعلیم کو تجارت بنا دیا۔ اس وقت غیر ملکی تعلیمی امداد اور اہداف کا بھی پاکستانی بن کر جائزہ لینا چاہئے۔ تعلیم کی نجکاری ترقی یافتہ ممالک میں مفید مگر ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں نقصان دہ ہے۔