شکیل ترابی
چھ برس بیت گئے ........کامل چھ برس یہ دُکھوں کی نہ ختم ہونے والی ایک داستان ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی کا یہ عالم رہا کہ کشمیر کا نصف برباد ہو گیا ۔ نعشے بے گورو کفن پڑے رہے اور کھنڈرات پر ہمارے بے حس نمائندے سنگ دِلی سے اقتدار کے کھیل کھیلتے رہے ۔آزادکشمیر میں گزشتہ چھ سالوں میں چھ حکومتیں تبدیل کی گئیں لیکن متاثرین زلزلہ کی طرف نہ کوئی دست شفقت بڑھا نہ کوئی آنکھ نم ہوئی .... اقتدار کے بے رحم کھیل میں مگن ”وحشی“ حکمرانوں نے سب کچھ بُھلا دیا ۔ شرف انسانیت سے کم تر حرکتیں کیں ۔ وقت آخر کو بھی بُھلا کرلوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔
عظیم صوفی شاعر بُلھے شاہ نے کسی اور تناظر میں کہا تھا
وے بُھلیا اساں مرناں ناہیں
گور پیا کوئی ہور
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق 9 اضلاع میں زلزلے سے 46,2,546 گھر مکمل اور 101091 گھر جزوی طور پر تباہ ہو گئے تھے۔
پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق زلزلے میں 74,639 افراد جبکہ بین الاقوامی اداروں کے مطابق86,000 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ 564 صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے مراکز اور دس ہزار سے زائد سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ جس سے9,60,000 بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں ۔ ایک طرف زلزلے نے ہوشربا تباہی مچائی جبکہ دوسری طرف پاکستانی قوم کا جذبہ ایثار و قربانی قابل دید تھا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے بعد زلزلے کے موقع پر قوم نے جس بیداری کا ثبوت دیا وہ تادیر یاد رکھا جائے گا۔ زلزلے کے دو ہفتے بعد ہی 24 اکتوبرکو ERRA (Earthquake Reconstruction and Rehabilitation Authority) کا قیام وجود میں آگیا ۔ بین الاقوامی اداروں اور ڈونرز کی مدد سے ابتدائی عرصہ میں” ERRA“ کی کارکردگی مثالی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص پاکستان میں ”جیالا “گورنمنٹ کے قیام کے بعد اس اتھارٹی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ۔ ابتداءمیں بھاری رشوت کے حصول کی و جہ سے بہت سے منصوبے متاثر ہوئے اور بعدازاں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر کے لیے حاصل ہونے والے فنڈز ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام “میں منتقل کیے جانے سے بھی بہت سے منصوبے شروع نہ ہو پائے یا ادھورے پڑے ہیں ۔ آزادکشمیر کے ٹھیکے داروں کی جمع پونچی ضائع ہو رہی ہے اور بعض فاقہ کشی کا شکار ہوکر وفاقی و آزادکشمیر حکومت کی بددیانیتوں کے خلاف احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں مگر اربا ب بست و کشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔
وفاقی حکومت کا شرمناک کردار اپنی جگہ مگر جس بے حیائی کا مظاہرہ گزشتہ چھ سالوں میں آزادکشمیر کے حکمرانوں نے کیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ آزادکشمیر کی پچھلی اسمبلی کے چند ممبران کو چھوڑ کر باقی کے کردار پر” تُف“ ہے جنہوں نے پانچ سال میں چار بار اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے چار حکومتیں تبدیل کیں ۔ راجہ فاروق حیدر کی چندماہ کی حکومت کو چھوڑ کر سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور متاثرین زلزلہ سے مکمل بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا ۔ آزادکشمیر میں اب تو جیالوں کی ایسی حکومت تشکیل دی گئی ہے، جس کے سربراہ حکومت میں آنے سے قبل لاڑکانہ کو اپنا سیاسی کعبہ و قبلہ گردانتے تھے اور اقتدار میں آتے ہی موصوف نے ارشاد فرمایا کہ: ” وہ لیڈر نہیں بلکہ گڑھی خدا بخش میں موجود 2 مزاروں (ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر) کے مجاور ہیں“۔ پاکستان کی وفاقی حکومت سے آزادی کے بیس کیمپ کے مسائل کے حل کے لیے جرات رندانہ درکار تھی مگر ” مجاور حکمران “ تو زرداری ، گیلانی سے بات کرنے کا حوصلہ درکنار وہ تو آزادکشمیر کے معاملات کی انچارج محترمہ فریال تالپور کے پی اے مسٹر رضوان سے جرات سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ زلزلے کی تباہی سے ہم نکل نہ پائے تھے کہ گزشتہ جولائی میں سیلاب نے مملکت پاکستان میں ایسی تباہی مچائی کہ پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًپانچواں حصہ پانی کی نذر ہوا اور تقریباً دو کروڑ لوگ تباہی سے متاثر ہوئے ۔ ایک طرف یہ آسمانی آفات ہیں جن کا ہم شکار ہیں ۔ دوسری طرف مملکت کو بین الاقوامی طور پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔اس ساری صورت حال میں بہترین منصوبہ بندی و اخلاص سے چیلنجز کے آگے پل باندھنے کی ضرورت تھی ۔ اسلام آباد میں راوی سب چین لکھ رہا ہے ۔ حکمران دونوں ہاتھو ںہی نہیں دونوں پاﺅں سے بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
مکّرر عرض ہے کہ یہ زلزلے اور سیلاب بھی کیا ہمارے لیے عبرت کا کوئی پیغام نہیں چھوڑ رہے ہیں؟
” کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اﷲکے خوف سے پگھل جائیں اور کیا ہم نے مرکے گور (قبر) میں نہیں جانا؟
چھ برس بیت گئے ........کامل چھ برس یہ دُکھوں کی نہ ختم ہونے والی ایک داستان ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی کا یہ عالم رہا کہ کشمیر کا نصف برباد ہو گیا ۔ نعشے بے گورو کفن پڑے رہے اور کھنڈرات پر ہمارے بے حس نمائندے سنگ دِلی سے اقتدار کے کھیل کھیلتے رہے ۔آزادکشمیر میں گزشتہ چھ سالوں میں چھ حکومتیں تبدیل کی گئیں لیکن متاثرین زلزلہ کی طرف نہ کوئی دست شفقت بڑھا نہ کوئی آنکھ نم ہوئی .... اقتدار کے بے رحم کھیل میں مگن ”وحشی“ حکمرانوں نے سب کچھ بُھلا دیا ۔ شرف انسانیت سے کم تر حرکتیں کیں ۔ وقت آخر کو بھی بُھلا کرلوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔
عظیم صوفی شاعر بُلھے شاہ نے کسی اور تناظر میں کہا تھا
وے بُھلیا اساں مرناں ناہیں
گور پیا کوئی ہور
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق 9 اضلاع میں زلزلے سے 46,2,546 گھر مکمل اور 101091 گھر جزوی طور پر تباہ ہو گئے تھے۔
پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق زلزلے میں 74,639 افراد جبکہ بین الاقوامی اداروں کے مطابق86,000 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ 564 صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے مراکز اور دس ہزار سے زائد سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ جس سے9,60,000 بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں ۔ ایک طرف زلزلے نے ہوشربا تباہی مچائی جبکہ دوسری طرف پاکستانی قوم کا جذبہ ایثار و قربانی قابل دید تھا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے بعد زلزلے کے موقع پر قوم نے جس بیداری کا ثبوت دیا وہ تادیر یاد رکھا جائے گا۔ زلزلے کے دو ہفتے بعد ہی 24 اکتوبرکو ERRA (Earthquake Reconstruction and Rehabilitation Authority) کا قیام وجود میں آگیا ۔ بین الاقوامی اداروں اور ڈونرز کی مدد سے ابتدائی عرصہ میں” ERRA“ کی کارکردگی مثالی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص پاکستان میں ”جیالا “گورنمنٹ کے قیام کے بعد اس اتھارٹی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ۔ ابتداءمیں بھاری رشوت کے حصول کی و جہ سے بہت سے منصوبے متاثر ہوئے اور بعدازاں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر کے لیے حاصل ہونے والے فنڈز ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام “میں منتقل کیے جانے سے بھی بہت سے منصوبے شروع نہ ہو پائے یا ادھورے پڑے ہیں ۔ آزادکشمیر کے ٹھیکے داروں کی جمع پونچی ضائع ہو رہی ہے اور بعض فاقہ کشی کا شکار ہوکر وفاقی و آزادکشمیر حکومت کی بددیانیتوں کے خلاف احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں مگر اربا ب بست و کشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔
وفاقی حکومت کا شرمناک کردار اپنی جگہ مگر جس بے حیائی کا مظاہرہ گزشتہ چھ سالوں میں آزادکشمیر کے حکمرانوں نے کیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ آزادکشمیر کی پچھلی اسمبلی کے چند ممبران کو چھوڑ کر باقی کے کردار پر” تُف“ ہے جنہوں نے پانچ سال میں چار بار اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے چار حکومتیں تبدیل کیں ۔ راجہ فاروق حیدر کی چندماہ کی حکومت کو چھوڑ کر سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور متاثرین زلزلہ سے مکمل بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا ۔ آزادکشمیر میں اب تو جیالوں کی ایسی حکومت تشکیل دی گئی ہے، جس کے سربراہ حکومت میں آنے سے قبل لاڑکانہ کو اپنا سیاسی کعبہ و قبلہ گردانتے تھے اور اقتدار میں آتے ہی موصوف نے ارشاد فرمایا کہ: ” وہ لیڈر نہیں بلکہ گڑھی خدا بخش میں موجود 2 مزاروں (ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر) کے مجاور ہیں“۔ پاکستان کی وفاقی حکومت سے آزادی کے بیس کیمپ کے مسائل کے حل کے لیے جرات رندانہ درکار تھی مگر ” مجاور حکمران “ تو زرداری ، گیلانی سے بات کرنے کا حوصلہ درکنار وہ تو آزادکشمیر کے معاملات کی انچارج محترمہ فریال تالپور کے پی اے مسٹر رضوان سے جرات سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ زلزلے کی تباہی سے ہم نکل نہ پائے تھے کہ گزشتہ جولائی میں سیلاب نے مملکت پاکستان میں ایسی تباہی مچائی کہ پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًپانچواں حصہ پانی کی نذر ہوا اور تقریباً دو کروڑ لوگ تباہی سے متاثر ہوئے ۔ ایک طرف یہ آسمانی آفات ہیں جن کا ہم شکار ہیں ۔ دوسری طرف مملکت کو بین الاقوامی طور پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔اس ساری صورت حال میں بہترین منصوبہ بندی و اخلاص سے چیلنجز کے آگے پل باندھنے کی ضرورت تھی ۔ اسلام آباد میں راوی سب چین لکھ رہا ہے ۔ حکمران دونوں ہاتھو ںہی نہیں دونوں پاﺅں سے بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
مکّرر عرض ہے کہ یہ زلزلے اور سیلاب بھی کیا ہمارے لیے عبرت کا کوئی پیغام نہیں چھوڑ رہے ہیں؟
” کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اﷲکے خوف سے پگھل جائیں اور کیا ہم نے مرکے گور (قبر) میں نہیں جانا؟