پیپلز پارٹی ‘ متحدہ‘ اے این پی جماعت اسلامی اور اسلامی سنی تحریک نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھتہ خوری میں شامل نہیں....
خدا وندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
سادہ دل بندوں سے کوئی پوچھے کہ انکی سادگی کی کوئی حد بھی ہے‘ یا کہیں انہوں نے ظلم کیخلاف اٹھنا بھی ہے؟
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں نہ ہاتھ میں تلوار رکھتے ہیں
جن پارٹیوں کےساتھ اسلام کا لاحقہ سابقہ نہیں لگا ہوا‘ انکی پوزیشن تو واضح ہے مگر یہ جو جماعت اسلامی ہے‘ اسلامی سنی تحریک ہے‘ یہ بھتہ خوری اسلام کی کونسی شق کے تحت کر رہے ہیں؟ بھتہ خوری ہو یا آدم خوری‘ ایک ہی بات ہے‘ اگر کوئی اس جرم کی تردید کرتا ہے تو اسے حق حاصل ہے لیکن آخر سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات نے بھی تو باقاعدہ شواہد کے پیش نظر بھتہ خوروں کی فہرست مرتب کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کوئی چھجو کا چوبارہ نہیں کہ دیکھے بھالے جانچے بغیر کوئی فیصلہ دےدے۔ حمام تو آخر حمام ہوتا ہے‘ وہاں یہ کہنا کہ کوئی ننگا نہیں‘ وہ بونگا ہے۔ بہرحال ہم اگرچہ فارسی میں کچھ کہنا نہیں چاہتے لیکن مجبوراً کہنا پڑ رہا ہے کہ: ”معلوم شد حاجی نیست“ (معلوم ہوا کہ حاجی نہیں‘ ساحلِ سمندر کو ہاتھ لگا کر واپس آگئے ہیں) سپریم کورٹ نے سب شیشہ کر دیا ہے۔
٭....٭....٭....٭
گزشتہ روز ایوان صدر کی جانب نکلنے والی ریلی پر پرویز الٰہی نے کہا ہے‘ بار بار ایوان صدر نہ آنا پڑے‘ گڈگورننس کو بہتر بنایا جائے۔
اگر گورننس ٹھیک نہیں تو اس حکومت کے ساتھ کیوں جونک کی طرح چپکے ہوئے ہیں؟ کیا مسلم لیگ قاف جو نوبیاہتا پارٹی ہے‘ اقتدار میں شامل نہیں؟ بہرصورت مفادات آخر مفادات ہوتے ہیں‘ ان کو چھوڑیں تو فسادات ہوتے ہیں۔ پرویز الٰہی میں اگرچہ پرویزیت ہے‘ مگر کہیں کہیں سے حق گوئی پورے تحفظات کےساتھ باہر بھی نکل آتی ہے۔ یہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے یا پھر ٹاٹ میں ٹاٹ کا‘ کیونکہ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ ایوان صدر تو بنا ہی ریلیوں کیلئے ہے‘ اس لئے اسکی طرز تعمیر ہی کچھ ایسی ہے جو اسکے مکینوں پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ ریلیوں کو ہوا کا جھونکا سمجھ کر خانہ زاد سیاست جاری رہتی ہے۔ پرویز الٰہی کے اس بیان اندر بیان کو دیکھ کر لگتا ہے:
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
مسلم لیگ قاف اب مسلم لیگ گاف ہو گئی ہے‘ بس میدانِ بیڈگوررنس میں دوڑائے گی گھوڑے اپنے۔ حکومت میں رہے گی فائدے کی خاطر اور کبھی اپوزیشن سے سُر ملا کر رنگ لگا کر شہیدوں میں بھی شامل رہے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ لوگوں کو پیپلز پارٹی سے کتنا ”پیار“ ہے اور وہ “مقبولیت“ کے درجے میں مشرف کو بھی پھلانگ گئی ہے اس لئے اب چار و نا چار زرداری کے سامنے چودھری صاحبان کو یہ تو کہنا پڑےگا....ع
منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے
٭....٭....٭....٭
صدر زرداری نے کہا ہے‘ مجھے باخبر رکھنے والا نظام بہت مستعد ہے۔
زرداری صاحب نے بڑی انکساری سے کام لیا ہے‘ وگرنہ وہ تو چڑھتا سورج ہیں اور ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“ کے مصداق کس سے چھپے ہیں کہ ان کو اس روشنی کی خبر دی جائے جو انکی شعاوں کے طفیل چارسو پھیلی ہوئی ہے۔ انکے راوی سارے کے سارے مستند اور ثقہ ہیں۔ رحمان ملک جیسے مخبر مستند کی خبر پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے؟ جس پر وائٹ ہاﺅس کی سنہری مہر لگی ہوتی ہے بلکہ ان پر تو غالب کا یہ مصرع بھی چسپاں ہوتا ہے ....ع ....کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
اسکے علاوہ بھی ان کو باخبر رکھنے والا نظام ناسا میں تیار ہوا ہے‘ اس لئے پل پل کی خبر ان تک بغیر کسی ملاوٹ کے پہنچتی ہے۔ ملک میں ویسے بھی جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اتنا واضح اور عیاں ہے کہ اسکی چنداں خبر دینے کی ضرورت نہیں البتہ ہم یہ مانتے ہیں کہ زرداری صاحب اپنی سیاست میں کامیاب ہیں جس کی وجہ واقعتاً ان کا وہ مستند نیٹ ورک ہے جو انہیں پہلے ہی ہر آندھی کی خبر دے دیتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جس چابکدستی سے انہوں نے قاف‘ متحدہ اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر کامیابی حاصل کی ہے‘ یہ سیاسی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے؟ جبکہ مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کا باعث ہی ایسے کسی نیٹ ورک کا فقدان ہے جو مردِحر کو حاصل ہے۔ کیا یہ سیاسی مات نہیں؟
٭....٭....٭....٭
سلمان بٹ نے جان بوجھ کر میڈن اوور کھیلا‘ استغاثہ نے آڈیو گفتگو پیش کردی۔
سلمان بٹ نے جس واضح انداز میں ملک و قوم کی عزت کو داﺅ پر لگایا اور پوری دنیا نے اسکی نجس آڈیو گفتگو سنی‘ اسکے بعد وہ اس ”انعام“ کا برملا مستحق ہے۔
اٹھا کر پھینک دو اسے ٹیم سے باہر
کہ سلمان بٹ ہے نکلا گندا انڈہ
ہم جن کو پوری قوم کی حیثیت سے پاکستان کا ہیرو اور سفیر قرار دیتے ہیں‘ اگر وہ بھی ملک و ملت کیلئے بدنامی کما کر لائیں تو ایسے کھلاڑیوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ دہشت گردی کا جھوٹا الزام تو ہم پر لگا ہی تھا کہ اب یہ کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ کی سچی تہمت بھی لگ گئی۔ کہئے اب دوسرے میدانوں اور شعبوں میں کوئی ہمارا کیونکر اعتبار کرےگا۔ پاکستانی کرکٹ جو کسی زمانے میں سچے کھرے کھیل کی ماہر سمجھی جاتی ہے۔ اب اس ایک بدروح کے باعث یہ داغ کب جا کر دھلے گا؟ کیا خوب کہا ہے میر نے....
گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا
فرق نکلا جو ہم نے باس کیا
الغرض ہماری کرکٹ جوں جوں صراط مستقیم سے اترتی گئی‘ ہماری پی آئی اے‘ عالم سرمستی سے یکدم ہوش میں آگئی اور خدا بھلا کرے طاہر خلیق کا جو ترجمانی کرتے ہیں‘ پی آئی اے کی انہوں نے یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ پی آئی اے نے ملک کے مختلف شہروں سے اپنی 69 حج پروازوں کے ذریعے تین روز میں 25 ہزار عازمین حج کو سعودی عرب کی سرزمین پر جا اتارا اور حیرانی اس بات پر ہے کہ حج پروازوں نے شیڈول کےمطابق مقررہ وقت پر اڑان بھری‘ یہ پی آئی اے کی ایسی کرامات ہیں کہ بے محابا کہنا پڑتا ہے ”لاجواب لوگ باکمال سروس“ خدا کرے کہ پی آئی اے میں یہ مثبت تبدیلی مستقل ہو اور وہ اسی طرح ثواب دارین حاصل کرتی رہے۔
خدا وندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
سادہ دل بندوں سے کوئی پوچھے کہ انکی سادگی کی کوئی حد بھی ہے‘ یا کہیں انہوں نے ظلم کیخلاف اٹھنا بھی ہے؟
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں نہ ہاتھ میں تلوار رکھتے ہیں
جن پارٹیوں کےساتھ اسلام کا لاحقہ سابقہ نہیں لگا ہوا‘ انکی پوزیشن تو واضح ہے مگر یہ جو جماعت اسلامی ہے‘ اسلامی سنی تحریک ہے‘ یہ بھتہ خوری اسلام کی کونسی شق کے تحت کر رہے ہیں؟ بھتہ خوری ہو یا آدم خوری‘ ایک ہی بات ہے‘ اگر کوئی اس جرم کی تردید کرتا ہے تو اسے حق حاصل ہے لیکن آخر سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات نے بھی تو باقاعدہ شواہد کے پیش نظر بھتہ خوروں کی فہرست مرتب کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کوئی چھجو کا چوبارہ نہیں کہ دیکھے بھالے جانچے بغیر کوئی فیصلہ دےدے۔ حمام تو آخر حمام ہوتا ہے‘ وہاں یہ کہنا کہ کوئی ننگا نہیں‘ وہ بونگا ہے۔ بہرحال ہم اگرچہ فارسی میں کچھ کہنا نہیں چاہتے لیکن مجبوراً کہنا پڑ رہا ہے کہ: ”معلوم شد حاجی نیست“ (معلوم ہوا کہ حاجی نہیں‘ ساحلِ سمندر کو ہاتھ لگا کر واپس آگئے ہیں) سپریم کورٹ نے سب شیشہ کر دیا ہے۔
٭....٭....٭....٭
گزشتہ روز ایوان صدر کی جانب نکلنے والی ریلی پر پرویز الٰہی نے کہا ہے‘ بار بار ایوان صدر نہ آنا پڑے‘ گڈگورننس کو بہتر بنایا جائے۔
اگر گورننس ٹھیک نہیں تو اس حکومت کے ساتھ کیوں جونک کی طرح چپکے ہوئے ہیں؟ کیا مسلم لیگ قاف جو نوبیاہتا پارٹی ہے‘ اقتدار میں شامل نہیں؟ بہرصورت مفادات آخر مفادات ہوتے ہیں‘ ان کو چھوڑیں تو فسادات ہوتے ہیں۔ پرویز الٰہی میں اگرچہ پرویزیت ہے‘ مگر کہیں کہیں سے حق گوئی پورے تحفظات کےساتھ باہر بھی نکل آتی ہے۔ یہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے یا پھر ٹاٹ میں ٹاٹ کا‘ کیونکہ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ ایوان صدر تو بنا ہی ریلیوں کیلئے ہے‘ اس لئے اسکی طرز تعمیر ہی کچھ ایسی ہے جو اسکے مکینوں پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ ریلیوں کو ہوا کا جھونکا سمجھ کر خانہ زاد سیاست جاری رہتی ہے۔ پرویز الٰہی کے اس بیان اندر بیان کو دیکھ کر لگتا ہے:
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
مسلم لیگ قاف اب مسلم لیگ گاف ہو گئی ہے‘ بس میدانِ بیڈگوررنس میں دوڑائے گی گھوڑے اپنے۔ حکومت میں رہے گی فائدے کی خاطر اور کبھی اپوزیشن سے سُر ملا کر رنگ لگا کر شہیدوں میں بھی شامل رہے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ لوگوں کو پیپلز پارٹی سے کتنا ”پیار“ ہے اور وہ “مقبولیت“ کے درجے میں مشرف کو بھی پھلانگ گئی ہے اس لئے اب چار و نا چار زرداری کے سامنے چودھری صاحبان کو یہ تو کہنا پڑےگا....ع
منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے
٭....٭....٭....٭
صدر زرداری نے کہا ہے‘ مجھے باخبر رکھنے والا نظام بہت مستعد ہے۔
زرداری صاحب نے بڑی انکساری سے کام لیا ہے‘ وگرنہ وہ تو چڑھتا سورج ہیں اور ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“ کے مصداق کس سے چھپے ہیں کہ ان کو اس روشنی کی خبر دی جائے جو انکی شعاوں کے طفیل چارسو پھیلی ہوئی ہے۔ انکے راوی سارے کے سارے مستند اور ثقہ ہیں۔ رحمان ملک جیسے مخبر مستند کی خبر پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے؟ جس پر وائٹ ہاﺅس کی سنہری مہر لگی ہوتی ہے بلکہ ان پر تو غالب کا یہ مصرع بھی چسپاں ہوتا ہے ....ع ....کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
اسکے علاوہ بھی ان کو باخبر رکھنے والا نظام ناسا میں تیار ہوا ہے‘ اس لئے پل پل کی خبر ان تک بغیر کسی ملاوٹ کے پہنچتی ہے۔ ملک میں ویسے بھی جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اتنا واضح اور عیاں ہے کہ اسکی چنداں خبر دینے کی ضرورت نہیں البتہ ہم یہ مانتے ہیں کہ زرداری صاحب اپنی سیاست میں کامیاب ہیں جس کی وجہ واقعتاً ان کا وہ مستند نیٹ ورک ہے جو انہیں پہلے ہی ہر آندھی کی خبر دے دیتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جس چابکدستی سے انہوں نے قاف‘ متحدہ اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر کامیابی حاصل کی ہے‘ یہ سیاسی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے؟ جبکہ مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کا باعث ہی ایسے کسی نیٹ ورک کا فقدان ہے جو مردِحر کو حاصل ہے۔ کیا یہ سیاسی مات نہیں؟
٭....٭....٭....٭
سلمان بٹ نے جان بوجھ کر میڈن اوور کھیلا‘ استغاثہ نے آڈیو گفتگو پیش کردی۔
سلمان بٹ نے جس واضح انداز میں ملک و قوم کی عزت کو داﺅ پر لگایا اور پوری دنیا نے اسکی نجس آڈیو گفتگو سنی‘ اسکے بعد وہ اس ”انعام“ کا برملا مستحق ہے۔
اٹھا کر پھینک دو اسے ٹیم سے باہر
کہ سلمان بٹ ہے نکلا گندا انڈہ
ہم جن کو پوری قوم کی حیثیت سے پاکستان کا ہیرو اور سفیر قرار دیتے ہیں‘ اگر وہ بھی ملک و ملت کیلئے بدنامی کما کر لائیں تو ایسے کھلاڑیوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ دہشت گردی کا جھوٹا الزام تو ہم پر لگا ہی تھا کہ اب یہ کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ کی سچی تہمت بھی لگ گئی۔ کہئے اب دوسرے میدانوں اور شعبوں میں کوئی ہمارا کیونکر اعتبار کرےگا۔ پاکستانی کرکٹ جو کسی زمانے میں سچے کھرے کھیل کی ماہر سمجھی جاتی ہے۔ اب اس ایک بدروح کے باعث یہ داغ کب جا کر دھلے گا؟ کیا خوب کہا ہے میر نے....
گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا
فرق نکلا جو ہم نے باس کیا
الغرض ہماری کرکٹ جوں جوں صراط مستقیم سے اترتی گئی‘ ہماری پی آئی اے‘ عالم سرمستی سے یکدم ہوش میں آگئی اور خدا بھلا کرے طاہر خلیق کا جو ترجمانی کرتے ہیں‘ پی آئی اے کی انہوں نے یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ پی آئی اے نے ملک کے مختلف شہروں سے اپنی 69 حج پروازوں کے ذریعے تین روز میں 25 ہزار عازمین حج کو سعودی عرب کی سرزمین پر جا اتارا اور حیرانی اس بات پر ہے کہ حج پروازوں نے شیڈول کےمطابق مقررہ وقت پر اڑان بھری‘ یہ پی آئی اے کی ایسی کرامات ہیں کہ بے محابا کہنا پڑتا ہے ”لاجواب لوگ باکمال سروس“ خدا کرے کہ پی آئی اے میں یہ مثبت تبدیلی مستقل ہو اور وہ اسی طرح ثواب دارین حاصل کرتی رہے۔