غلام اکبر
پاکستان میں میڈیا ورلڈ کا منظر نامہ جناب نجم سیٹھی جناب امتیاز عالم جناب نذیر ناجی جناب حسن نثار اور جناب نصرت جاوید کے بغیر مکمل نہیں ۔ یہ تمام ایسے نام ہیں اور ان کی وجہءشہرت اگرچہ ایک مخصوص سوچ یا اندازِ فکر ہے جس مخصوص سوچ اور اندازِ فکر کو ان کی وجہ ءشہرت کہا جاسکتا ہے اس کے ساتھ اور بھی کئی نام منسلک ہوں گے مگر یہاں میرا مقصد چند ایسے ناموں کو سامنے رکھ کر یہ ناقابل ِتردید حقیقت بیان کرنا ہے کہ آنے والے مہینوں یا برسوں میں پاکستان دو متصادم نظریات کے درمیان جنگ کا میدان بننے والا ہے ۔ ان تمام ناموں کا ذکر ایک ضمن اور ایک سانس میں ایک ساتھ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کے درمیان سوچ لیاقت مقاصد اور کردار کا فرق نہیں ہوگا۔ اس قسم کے فرق کا پایا جانا ایک فطری بات ہے۔سب نے الگ الگ ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور پھر بند بھی کرلی ہیں۔
اگرچہ ان کا تعلق ایک ہی ادارے سے ہے مگر ہر ایک کی فکری نشو و نما الگ الگ حالات میں ہوئی ہے۔ لیاقت اور کردار بھی وہ الگ الگ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان کے مماثلت رکھنے والے اندازہائے فکر کے پیچھے مقاصد بھی الگ الگ ہوں گے۔ مثال کے طور پر میںپورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جناب حسن نثار کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ”مہمان نوازی “ سے لطف اندوز ہونے کا اتفاق کبھی نہیںہوا ہوگا جبکہ جناب نجم سیٹھی کا واشنگٹن آنا جانا ایسی ہی بات ہے جیسی بات جناب زرداری صاحب کا اسلام آباد کے ایوانِ صدر سے کراچی کے بلاول ہاﺅس آنا جانا۔ اور مثال کے ہی طور پر دنیائے ساغرومینا سے ایک جیسی ہی آشنائی رکھنے کے باوجود جناب نصر ت جاوید اور جناب نذیر ناجی کی اقدار میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ جناب نصر ت جاوید سے اختلاف بڑی شدت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو میں کرتا ہوں مگر میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے قلم سے یا زبان سے نکلنے والے الفاظ کی قیمت وصول کرتے ہوں گے ۔ اسی طرح جناب حسن نثار جب جوشِ بیان میں اسلامی تاریخ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو مجھے بے حدطیش آتا ہے۔ مگر جتنے عرصے سے میں انہیں جانتا ہوں میرے لئے ان کی شخصیت کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ ان کے اندر جس ناراضگی کا ” لاوا“ چھپا ہوا ہے وہ ناراضگی انہیں صرف اسلامی تاریخ سے نہیں ان حالات سے بھی ہے جن میں رہ کر انہوں نے اپنی قلمکاری کو پروان چڑھایا ہے اور خود اپنی ذات سے بھی ہے کہ وہ اسے اپنی آرزوﺅں کا آئینہ نہیں بناسکے۔ اور شاید وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہوں کہ جس شیشے کے ٹوٹنے کی آواز نہ آئے وہ توجہ حاصل نہیں کرتا۔
جہاں تک جناب امتیاز عالم کا تعلق ہے میں انہیں بالکل نہیں جانتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ ایسی ” صحافتی “ خدمات انجام دینے کے صلے میں انہیں ہزاروں ڈالر ماہانہ ملتے ہیں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہیں مگر جن کی بدولت انہیں سیون سٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام کا موقع اکثر ملتا رہتا ہے۔
تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگئی ہے مگر جس موضوع کا انتخاب میں نے اپنے آج کے کالم کے لئے کیا ہے وہ ایسی ہی تمہید کا متقاضی ہے۔
جو قارئین میڈیا پر تجزیے دیکھتے سنتے یا پڑھتے رہتے ہیں ان کے شعور‘ لاشعور یا تحت الشعور میں یہ بات ضرور ہوگی کہ ہمارا ملک بہت جلد دو متحارب سوچوں کا میدانِ جنگ بننے والا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہلکے پھلکے انداز میں یہ جنگ شروع بھی ہو چکی ہے۔ میںاس ضمن میں اس تمسخرانہ اور تضحیک آمیز انداز کا ذکر بطور خاص کروں گا جس کا نشانہ اسلام کو پاکستان کی آئینی اساس مسلم تشخص کو قومی شناخت کا پیمانہ اور نظریہ ءپاکستان کو مملکت کی رگوں میں بہتا ہوا خون سمجھنے والے لوگوں کو وہ لوگ بنا رہے ہیں جن کی پہچان میں نے مندرجہ بالا ناموں اور ان ناموں کے ساتھ جڑی سوچ کے ذریعے کرائی ہے۔
اس ضمن میں ایک خاص ترکیب ” غیرت بریگیڈ“ خاصے عرصے سے زیر استعمال ہے اور پاکستان کے اسلامی پس منظر پر ایمان رکھنے والوں کی نشاندہی کے لئے کثرت سے گردش کرتی رہتی ہے۔
یہ ترکیب میری نظروں سے ایک ایس ایم ایس کی بدولت گزری ۔ پہلے تو میں اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہا۔ پھر جب دو تین مرتبہ اس ترکیب کا ذکر تجزیوں وغیرہ میں ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ” گالی “ ہمارے روشن خیال ترقی پسند مغرب نواز اور سیکولر طبقوں اور دانشوروں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کررکھی ہے جو آنحضرت کی حرمت قرآن پاک کے تقدس اور امت محمدی کے تصور کو اپنی اور قوم کی غیرت کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔
میں کبھی کبھی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر کبھی ” غیرت “ کے تصور سے چڑنے اور اسے تمسخر کا نشانہ بنانے والے لوگوں کو ” غیرت بریگیڈ“ کی حقیقی طاقت سے سابقہ پڑا تو انہیں سرزمین پاک پر کہیں پنا ہ نہیں ملے گی۔ جس ” غیرت بریگیڈ“ کو وہ چند قلمکاروں یا تجزیہ نگاروں پر مشتمل سمجھتے ہیں وہ اٹھارہ کروڑ فرزندان و دخترانِ پاکستان کا بحرِ بے کراں ہے جس کی بپھری ہوئی موجوں میں یہ سب لوگ تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔
میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ” غیرت برپگیڈ“ ساری کی ساری ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کا دامن ہر قسم کی برائی یا کجی سے پاک ہے۔ یقینا ان میں عبداللہ ابن ابی کے پیروکار بھی ہوں گے۔ مگر جس سوچ کی بدولت ” غیرت بریگیڈ“ کی ترکیب ایجاد ہوئی اورگردش میں لائی گئی وہ سوچ بڑی عظیم ہے۔
وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں جب مملکتِ خداداد کہلانے والے پاکستان کے ہر باسی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محمد کے خدا کو قادرِ مطلق اور حاکم حقیقی مانتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی نہیں مانتا ہوگا تو اسے ان تمام حقوق کا مستحق سمجھا جائےگا جو آنحضرت نے ” نہ ماننے والوں “ کے لئے مخصوص کئے تھے۔ اگر مانتا ہوگا تو پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن خدا کا کلام ہے خدا کا فرمان ہے خدا کا آئین ہے اور اس کے احکامات کو دل و جان سے تسلیم کرنا مسلمان کہلانے والے ہر شخص پر واجب ہے۔ جیسا کہ بانی پاکستان قائداعظم نے بھی فرمایا ہے۔
اسلام میں دین کو سیاست اور ریاست سے الگ کرنے کا مطلب ایک ہی ہے۔ چنگیزی کو قبول کرنا ۔ جیسا کہ اقبال کہتا ہے۔
آج کا مغرب بظاہر اسلام کے خلاف برسرپیکار نہیں۔ ہمارے روشن خیال ترقی پسند اور سیکولر دانشوروں کو ” دلیل“ کا ہتھیار فراہم کرنے کے لئے مغرب اس بات پر خاص زور دیتا ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ مگر عملاً جب وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ امن اور بھائی چارے کے اس دین کو ریاستی معاملات میں کوئی جگہ نہیں ملنی چاہئے اور جب وہ مسلم ممالک میں ریاستی معاملات سے اسلام کو خارج کرنے یا کرانے کی مہم چلاتا ہے تو اس کے سیکولر نقاب کے پیچھے سے ” عیسائی دنیا کی تاریخی اسلام دشمنی “ جھانکے بغیر نہیں رہتی۔پاکستان پر امریکہ کی خصوصی ” مہربانیاں“ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کی سٹرٹیجک اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور اسے اپنے اثر و رسو خ سے آزاد کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم دنیا میں ایران کے علاوہ یہ واحد ملک ہے جس نے آئینی طور پر اسلام کو اپنے وجود کی اساس قرار دے رکھا ہے اور جو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے بلکہ آنے والے وقتوں میں دنیائے ہلال کی قیادت سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔پاکستان کو ایک روشن ” اسلامی مستقبل “ کی طرف بڑھنے سے روکنے کےلئے ضروری ہے کہ اسے عدم استحکام فکری انتشار اور شکست و ریخت کا نشانہ بنائے رکھا جائے۔
یہ کام امریکہ کے مقرر کردہ ” جعفر و صادق “ بڑی ” جانفشانی “ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ مگر امریکہ کی حالیہ تاریخ اس کے مقاصد کے لئے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ گزشتہ برس کے اواخر میں جب تیونس میں انقلاب کی آندھی اٹھی تو مغرب خوشی سے جھوم اٹھا ۔اسے یقین تھا کہ زین العابدین بن علی کی آمریت کے شکنجے سے نکل کرتیونس ” روشن خیال “ مغربی جمہوری قوتوں کی گود میں آئے گرے گا۔
زمینی حقائق مغرب کے اِس یقین کو جھٹلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رشید غنوشی کی قیادت میں اسلامی قوتیں تیو نس کے مستقبل کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔مصر کا انقلاب بھی مغرب نواز مستقبل کی طرف نہیں ” مسلم شناخت “ کے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔اور جو کچھ لیبیا میں ہوا ہے وہ تو خود امریکیوں کے لئے ناقابل ِیقین ہے۔
آج امریکہ اسی عبدالحکیم بیلحاج کی اعانت کرنے پر مجبور ہے جسے ” اسلامسٹ“ ہونے کے جرم میں چند برس قبل لیبیا سے نکلنا پڑا تھا۔ جسے امریکیوں نے 2006ءمیں کوالالمپور سے پکڑ کر قذافی کے حوالے کیا تھا اور جو چھ برس تک اسلامی سوچ رکھنے کی پاداش میں ” پرتشدد قید وبند “ کی صعوبتیں جھیلتا رہا اور جس کی قیاد ت میں لیبیا کی حریت پسند قوتوں نے اگست کے اواخر میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرلیا۔گزشتہ دنوں جب برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون اور فرانس کے صدر سرکوزی طرابلس کے دورے پر گئے تو عبدالحکیم بیلحاج نے ان سے کہا۔
” اسلام اور جمہوریت میں کوئی تصادم نہیں مگر حجاب اور اللہ اکبر کے نعروں پر ہمارے مغربی دوستوں کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔“
میرا دل کہتا ہے اور یقینا آپ کا دل بھی کہتا ہوگا کہ بادِمخالف کی تندی و تیزی اپنی جگہ مگر یہ صدی جیسے جیسے آگے بڑھے گی اللہ اکبر کی صدائیں بلند سے بلند تر ہوتی جائیں گی۔
ہمارے ترقی پسند دانشوروں کو چاہئے کہ ان صداﺅں کو سننے اور برداشت کرنے کی مجبور ی سے سمجھوتہ کرلیں۔ جس طرح انکے پیش رو سرخ سویرے کے منتظر ترقی پسند سرخہ دانشوروں نے روس کی شکست و ریخت کے بعد سرخ سویرے کو امید نوید کو فراموش کر دیا اور اب تک کئے ہوئے ہیں‘ یہ دانشور بھی تسلیم کرلیں کہ جس ملک کے وہ شہری ہیں‘ اسکی بنیاد دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان ہے جس کے بغیر یہ آزاد ملک معرض وجود میں نہیں آسکتا تھا اور اب فراموش کر دینے سے قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ کچھ آئی سمجھ؟
پاکستان میں میڈیا ورلڈ کا منظر نامہ جناب نجم سیٹھی جناب امتیاز عالم جناب نذیر ناجی جناب حسن نثار اور جناب نصرت جاوید کے بغیر مکمل نہیں ۔ یہ تمام ایسے نام ہیں اور ان کی وجہءشہرت اگرچہ ایک مخصوص سوچ یا اندازِ فکر ہے جس مخصوص سوچ اور اندازِ فکر کو ان کی وجہ ءشہرت کہا جاسکتا ہے اس کے ساتھ اور بھی کئی نام منسلک ہوں گے مگر یہاں میرا مقصد چند ایسے ناموں کو سامنے رکھ کر یہ ناقابل ِتردید حقیقت بیان کرنا ہے کہ آنے والے مہینوں یا برسوں میں پاکستان دو متصادم نظریات کے درمیان جنگ کا میدان بننے والا ہے ۔ ان تمام ناموں کا ذکر ایک ضمن اور ایک سانس میں ایک ساتھ کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کے درمیان سوچ لیاقت مقاصد اور کردار کا فرق نہیں ہوگا۔ اس قسم کے فرق کا پایا جانا ایک فطری بات ہے۔سب نے الگ الگ ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور پھر بند بھی کرلی ہیں۔
اگرچہ ان کا تعلق ایک ہی ادارے سے ہے مگر ہر ایک کی فکری نشو و نما الگ الگ حالات میں ہوئی ہے۔ لیاقت اور کردار بھی وہ الگ الگ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان کے مماثلت رکھنے والے اندازہائے فکر کے پیچھے مقاصد بھی الگ الگ ہوں گے۔ مثال کے طور پر میںپورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جناب حسن نثار کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ”مہمان نوازی “ سے لطف اندوز ہونے کا اتفاق کبھی نہیںہوا ہوگا جبکہ جناب نجم سیٹھی کا واشنگٹن آنا جانا ایسی ہی بات ہے جیسی بات جناب زرداری صاحب کا اسلام آباد کے ایوانِ صدر سے کراچی کے بلاول ہاﺅس آنا جانا۔ اور مثال کے ہی طور پر دنیائے ساغرومینا سے ایک جیسی ہی آشنائی رکھنے کے باوجود جناب نصر ت جاوید اور جناب نذیر ناجی کی اقدار میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ جناب نصر ت جاوید سے اختلاف بڑی شدت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو میں کرتا ہوں مگر میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے قلم سے یا زبان سے نکلنے والے الفاظ کی قیمت وصول کرتے ہوں گے ۔ اسی طرح جناب حسن نثار جب جوشِ بیان میں اسلامی تاریخ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو مجھے بے حدطیش آتا ہے۔ مگر جتنے عرصے سے میں انہیں جانتا ہوں میرے لئے ان کی شخصیت کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ ان کے اندر جس ناراضگی کا ” لاوا“ چھپا ہوا ہے وہ ناراضگی انہیں صرف اسلامی تاریخ سے نہیں ان حالات سے بھی ہے جن میں رہ کر انہوں نے اپنی قلمکاری کو پروان چڑھایا ہے اور خود اپنی ذات سے بھی ہے کہ وہ اسے اپنی آرزوﺅں کا آئینہ نہیں بناسکے۔ اور شاید وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہوں کہ جس شیشے کے ٹوٹنے کی آواز نہ آئے وہ توجہ حاصل نہیں کرتا۔
جہاں تک جناب امتیاز عالم کا تعلق ہے میں انہیں بالکل نہیں جانتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ ایسی ” صحافتی “ خدمات انجام دینے کے صلے میں انہیں ہزاروں ڈالر ماہانہ ملتے ہیں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہیں مگر جن کی بدولت انہیں سیون سٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام کا موقع اکثر ملتا رہتا ہے۔
تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگئی ہے مگر جس موضوع کا انتخاب میں نے اپنے آج کے کالم کے لئے کیا ہے وہ ایسی ہی تمہید کا متقاضی ہے۔
جو قارئین میڈیا پر تجزیے دیکھتے سنتے یا پڑھتے رہتے ہیں ان کے شعور‘ لاشعور یا تحت الشعور میں یہ بات ضرور ہوگی کہ ہمارا ملک بہت جلد دو متحارب سوچوں کا میدانِ جنگ بننے والا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہلکے پھلکے انداز میں یہ جنگ شروع بھی ہو چکی ہے۔ میںاس ضمن میں اس تمسخرانہ اور تضحیک آمیز انداز کا ذکر بطور خاص کروں گا جس کا نشانہ اسلام کو پاکستان کی آئینی اساس مسلم تشخص کو قومی شناخت کا پیمانہ اور نظریہ ءپاکستان کو مملکت کی رگوں میں بہتا ہوا خون سمجھنے والے لوگوں کو وہ لوگ بنا رہے ہیں جن کی پہچان میں نے مندرجہ بالا ناموں اور ان ناموں کے ساتھ جڑی سوچ کے ذریعے کرائی ہے۔
اس ضمن میں ایک خاص ترکیب ” غیرت بریگیڈ“ خاصے عرصے سے زیر استعمال ہے اور پاکستان کے اسلامی پس منظر پر ایمان رکھنے والوں کی نشاندہی کے لئے کثرت سے گردش کرتی رہتی ہے۔
یہ ترکیب میری نظروں سے ایک ایس ایم ایس کی بدولت گزری ۔ پہلے تو میں اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہا۔ پھر جب دو تین مرتبہ اس ترکیب کا ذکر تجزیوں وغیرہ میں ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ” گالی “ ہمارے روشن خیال ترقی پسند مغرب نواز اور سیکولر طبقوں اور دانشوروں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کررکھی ہے جو آنحضرت کی حرمت قرآن پاک کے تقدس اور امت محمدی کے تصور کو اپنی اور قوم کی غیرت کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔
میں کبھی کبھی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر کبھی ” غیرت “ کے تصور سے چڑنے اور اسے تمسخر کا نشانہ بنانے والے لوگوں کو ” غیرت بریگیڈ“ کی حقیقی طاقت سے سابقہ پڑا تو انہیں سرزمین پاک پر کہیں پنا ہ نہیں ملے گی۔ جس ” غیرت بریگیڈ“ کو وہ چند قلمکاروں یا تجزیہ نگاروں پر مشتمل سمجھتے ہیں وہ اٹھارہ کروڑ فرزندان و دخترانِ پاکستان کا بحرِ بے کراں ہے جس کی بپھری ہوئی موجوں میں یہ سب لوگ تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔
میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ” غیرت برپگیڈ“ ساری کی ساری ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کا دامن ہر قسم کی برائی یا کجی سے پاک ہے۔ یقینا ان میں عبداللہ ابن ابی کے پیروکار بھی ہوں گے۔ مگر جس سوچ کی بدولت ” غیرت بریگیڈ“ کی ترکیب ایجاد ہوئی اورگردش میں لائی گئی وہ سوچ بڑی عظیم ہے۔
وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں جب مملکتِ خداداد کہلانے والے پاکستان کے ہر باسی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محمد کے خدا کو قادرِ مطلق اور حاکم حقیقی مانتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی نہیں مانتا ہوگا تو اسے ان تمام حقوق کا مستحق سمجھا جائےگا جو آنحضرت نے ” نہ ماننے والوں “ کے لئے مخصوص کئے تھے۔ اگر مانتا ہوگا تو پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن خدا کا کلام ہے خدا کا فرمان ہے خدا کا آئین ہے اور اس کے احکامات کو دل و جان سے تسلیم کرنا مسلمان کہلانے والے ہر شخص پر واجب ہے۔ جیسا کہ بانی پاکستان قائداعظم نے بھی فرمایا ہے۔
اسلام میں دین کو سیاست اور ریاست سے الگ کرنے کا مطلب ایک ہی ہے۔ چنگیزی کو قبول کرنا ۔ جیسا کہ اقبال کہتا ہے۔
آج کا مغرب بظاہر اسلام کے خلاف برسرپیکار نہیں۔ ہمارے روشن خیال ترقی پسند اور سیکولر دانشوروں کو ” دلیل“ کا ہتھیار فراہم کرنے کے لئے مغرب اس بات پر خاص زور دیتا ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ مگر عملاً جب وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ امن اور بھائی چارے کے اس دین کو ریاستی معاملات میں کوئی جگہ نہیں ملنی چاہئے اور جب وہ مسلم ممالک میں ریاستی معاملات سے اسلام کو خارج کرنے یا کرانے کی مہم چلاتا ہے تو اس کے سیکولر نقاب کے پیچھے سے ” عیسائی دنیا کی تاریخی اسلام دشمنی “ جھانکے بغیر نہیں رہتی۔پاکستان پر امریکہ کی خصوصی ” مہربانیاں“ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کی سٹرٹیجک اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور اسے اپنے اثر و رسو خ سے آزاد کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم دنیا میں ایران کے علاوہ یہ واحد ملک ہے جس نے آئینی طور پر اسلام کو اپنے وجود کی اساس قرار دے رکھا ہے اور جو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے بلکہ آنے والے وقتوں میں دنیائے ہلال کی قیادت سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔پاکستان کو ایک روشن ” اسلامی مستقبل “ کی طرف بڑھنے سے روکنے کےلئے ضروری ہے کہ اسے عدم استحکام فکری انتشار اور شکست و ریخت کا نشانہ بنائے رکھا جائے۔
یہ کام امریکہ کے مقرر کردہ ” جعفر و صادق “ بڑی ” جانفشانی “ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ مگر امریکہ کی حالیہ تاریخ اس کے مقاصد کے لئے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ گزشتہ برس کے اواخر میں جب تیونس میں انقلاب کی آندھی اٹھی تو مغرب خوشی سے جھوم اٹھا ۔اسے یقین تھا کہ زین العابدین بن علی کی آمریت کے شکنجے سے نکل کرتیونس ” روشن خیال “ مغربی جمہوری قوتوں کی گود میں آئے گرے گا۔
زمینی حقائق مغرب کے اِس یقین کو جھٹلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رشید غنوشی کی قیادت میں اسلامی قوتیں تیو نس کے مستقبل کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔مصر کا انقلاب بھی مغرب نواز مستقبل کی طرف نہیں ” مسلم شناخت “ کے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔اور جو کچھ لیبیا میں ہوا ہے وہ تو خود امریکیوں کے لئے ناقابل ِیقین ہے۔
آج امریکہ اسی عبدالحکیم بیلحاج کی اعانت کرنے پر مجبور ہے جسے ” اسلامسٹ“ ہونے کے جرم میں چند برس قبل لیبیا سے نکلنا پڑا تھا۔ جسے امریکیوں نے 2006ءمیں کوالالمپور سے پکڑ کر قذافی کے حوالے کیا تھا اور جو چھ برس تک اسلامی سوچ رکھنے کی پاداش میں ” پرتشدد قید وبند “ کی صعوبتیں جھیلتا رہا اور جس کی قیاد ت میں لیبیا کی حریت پسند قوتوں نے اگست کے اواخر میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرلیا۔گزشتہ دنوں جب برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون اور فرانس کے صدر سرکوزی طرابلس کے دورے پر گئے تو عبدالحکیم بیلحاج نے ان سے کہا۔
” اسلام اور جمہوریت میں کوئی تصادم نہیں مگر حجاب اور اللہ اکبر کے نعروں پر ہمارے مغربی دوستوں کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔“
میرا دل کہتا ہے اور یقینا آپ کا دل بھی کہتا ہوگا کہ بادِمخالف کی تندی و تیزی اپنی جگہ مگر یہ صدی جیسے جیسے آگے بڑھے گی اللہ اکبر کی صدائیں بلند سے بلند تر ہوتی جائیں گی۔
ہمارے ترقی پسند دانشوروں کو چاہئے کہ ان صداﺅں کو سننے اور برداشت کرنے کی مجبور ی سے سمجھوتہ کرلیں۔ جس طرح انکے پیش رو سرخ سویرے کے منتظر ترقی پسند سرخہ دانشوروں نے روس کی شکست و ریخت کے بعد سرخ سویرے کو امید نوید کو فراموش کر دیا اور اب تک کئے ہوئے ہیں‘ یہ دانشور بھی تسلیم کرلیں کہ جس ملک کے وہ شہری ہیں‘ اسکی بنیاد دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان ہے جس کے بغیر یہ آزاد ملک معرض وجود میں نہیں آسکتا تھا اور اب فراموش کر دینے سے قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ کچھ آئی سمجھ؟