جمعۃ المبارک10 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 8؍ نومبر2019 ء
اہم شاہراہوں پر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری۔ شہری شدید مشکلات کا شکار۔
لاہور اس وقت دھرنا دینے والوں کے نرغے میںہے۔ اہم سڑکوں، مال روڈ ، ڈیوس روڈ اور نہر والی سڑک پر کہیں انجینئر، کہیں خصوصی افراد اور کہیں طلبہ مورچہ جمائے نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں کے باہر ڈاکٹر اور نرسیں احتجاج کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ تو جان بوجھ کر حکومت مخالف ماحول بنانے والی بات ہے۔ عرصہ دراز سے حکومت ان افراد کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ خود احتجاج کرنے والے یہ لوگ بھی گلہ کر رہے ہیں کہ انکے جائز مطالبات پر بھی حکومت انہیں لفٹ نہیں کراتی۔ الٹا لولی پاپ دیکر بہلاتی ہے۔ مگر حکومت ہے کہ ان پر ترس ہی نہیں کھا رہی۔ اب ایک بار پھر نابینا حضرات بھی سڑکوں پر ہیں۔ اس بار ان کا قافلہ کلب روڈ پر وزیراعلیٰ آفس کے باہر دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ تین روز گزر چکے۔ موسم کی سختیاں تو یہ برداشت کر رہے ہیں۔ سردی‘ بارش‘ سموگ یہ تین خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں جیسے چیلیں گوشت پر منڈلاتی ہیں۔ عام فہم بات ہے یہ چند درجن لوگ ہیں۔ ان کے مطالبات بھی جائز ہیں۔ یہ ملازمتوں میں اپنا کوٹہ مانگ رہے ہیں تو حکومت بخیلی سے کام نہ لے۔ ان کی تعلیم‘ صحت کا احساس اور مالی مشکلات کا ازالہ کرے۔ جب اندھے کی جگہ آنکھ والے‘ بہرے کی جگہ سننے والے‘ معذور کی جگہ ٹانگوں اور بازو والے ان کے کوٹہ پر سفارش‘ رشوت اور دھونس پر نوکریاں حاصل کریں گے تو یہ بے آسرا لوگ کہاں جائیں گے۔ حکومت اپنے اعلانات پر عملدرآمد کرکے دھرنا دینے والوں کی اشک شوئی کرے تاکہ یہ اطمینان سے واپس جائیں اور عوام الناس کو سڑکیں بند ہونے کی اذیت سے نجات ملے۔
٭٭……٭……٭٭
مولانا نے مار چ کے ذریعے بہت کچھ حاصل کر لیا: نورالحق قادری
مذاکراتی ٹیم میں شامل ایک حکومتی وزیر کی طرف سے ایسا بیان تو خاصے اچنبھے کی بات ہے۔ اس پر تو ہر شخص کے کان کھڑے ہو سکتے ہیں۔ نورالحق قادری خود بھی مولانا ہیں اور وفاقی وزیر مذہبی امور ہیں۔ وہ ایسے ہی ہوائی تو نہیں چھوڑتے ہونگے۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے جس پر انہوں نے ایسا ذومعنی بیان دیا ہے۔ عوام شیخ رشید‘ فواد چودھری‘ مراد سعید جیسے وزراء کے بیانات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سیاسی بیان بازی کا حصہ ہے مگر مذاکراتی ٹیم کے ممبر کی طرف سے ایسا دو دھاری بیان خاصہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کیلئے بھی اور مولانا نورالحق قادری کیلئے بھی۔ کیا حکومت کچھ لو‘ کچھ دو پر آگئی ہے یا مولانا نے پس پردہ کچھ اپنے مطالبات منوا لئے ہیں۔ حکومتی وزراء تو مولانا کو پہلے بھی کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی اور ڈیزل پرمٹ کے حوالے سے نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت درپردہ کیا سودا کر رہی ہے۔ کونسی چیئرمینی یا کونسا پرمٹ جاری کرے گی۔ ایسی باتوں سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں اب مولانا فضل الرحمن اس بارے میں کونسا پردہ چاک کرتے ہیں اور اصل بات سامنے لاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں خریدوفروخت کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے۔
گوجرانوالہ میں مرحوم شخص کی گرفتاری کیلئے پولیس کا دھاوا
پولیس کے شیرجوانوں نے اس دھاوے میں نہ صرف اہل خانہ کو مارا پیٹا بلکہ اپنی خوش خلقی کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا۔ وہ بھی اس طرح کہ اہل محلہ بھی جو یہ عارفانہ کلام سننے کیلئے جمع تھے پولیس کے خلاف نعرہ بازی پر مجبور ہو گئے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو غنیمت ہوتی۔ پولیس والے جس شخص کی گرفتاری کیلئے میدان میں آئے اور اس کے گھر والوں کو انسان سے دنبہ بنا دیا‘ وہ شخص پھر بھی پولیس کے ہاتھ نہیں آیا۔ وہ ہاتھ آ بھی نہیں سکتا تھا چاہے پورے پنجاب کی پولیس آکر محاصرہ کرتی یا مورچہ زن ہوتی کیونکہ موصوف 15 سال پہلے دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ خدا جانے پولیس کو اس مرحوم شخص کی اچانک اتنی شدت سے یاد کیسے آگئی۔ اب بھلا مرے ہوئے شخص کو کہاں سے ڈھونڈ کر لایا جا سکتا ہے۔ اس بات کا ہماری پولیس کو ادراک نہیں۔ اس لئے وہ گھروالوں کو مار مار کر مطلوبہ شخص کی برآمدگی پر مصر رہے۔ بعد میں لوگوں نے انہیں سمجھایا بجھایا کہ ایسا ممکن نہیں‘ مُردے واپس زندہ نہیں ہوتے۔ اس کیلئے قیامت تک کا انتظار کرنا ہوگا ورنہ یہ تو وہی بات ہے کہ سعادت حسن منٹو نے ایک ناول لکھا تھا ’’زیرو بم‘‘ ادبی چاشنی سے بھرپور‘ اس عنوان کا مطلب اپنے اندر ایک مزہ رکھتا ہے مگر بھلا ہو اس وقت کی پولیس کا جنہوں نے منٹو صاحب کو دھر لیا اور ان سے ان کے تشکیل کردہ ’’زیرو بم‘‘ کا ٹھکانہ پوچھتے رہے۔ لگتا ہے وقت بدلنے کے باوجود پولیس والوں کی ذہنیت نہیں بدلی‘ وہ ابھی تک اسی ’’زیرو بم‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ چاہے کسی کے گھر سے ملے یا قبرستان سے۔
٭٭……٭……٭٭
آپ سے بہتر وقت ملاقات ہوگی‘ نوازشریف کا روانگی کے وقت ڈاکٹروں سے مکالمہ
کچہریوں‘ ہسپتالوں‘ جیلوں اور تھانوں سے نکلتے وقت لوگ شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ دوبارہ کبھی ان سے واسطہ نہ پڑے مگر لگتا ہے میاں صاحب کی دیکھ بھال ڈاکٹروں‘ نرسوں اور دیگر عملے نے اتنی خوش اسلوبی سے کی کہ میاں صاحب ہسپتال سے رخصت ہوتے ہوئے بھی ان سے کسی اچھے وقت ملاقات کے متمنی دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا وقت کب آنا ہے مگر امید پر دنیا قائم ہے۔ اگر میاں نوازشریف کا اچھا وقت موجود ہوتا تو وہ سروسز ہسپتال کے عملے کو خوب نوازتے یا ان پر نوازشات کی برسات کر دیتے۔ ویسے اب بھی وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ انہیں ہیرے جواہرات نہ سہی‘ نوٹوں میں ضرور تول سکتے ہیں۔ مزاج بھی ان کا شاہانہ ہے۔ خدا انہیں صحت کامل عطا کرے۔ اس موقع پر ہمیں آصف زرداری کی زرداریاں اور یاریاں یاد آرہی ہیں جنہوں نے اپنے جیل کے ایام کے دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنے دور حکومت میں انہیں زر سے تول دیا۔ اب کل اگر میاں برادران پھر حکومت سنبھالتے ہیں تو ان کے ایام جیل اور ایام ہسپتال کے دوست احباب امید رکھیں‘ وہ شادوآباد ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ انہیں یاد رکھیں۔ اسی طرح جس طرح آصف زرداری نے یاد رکھا۔ کہتے ہیں خوشیوں میں ساتھ دینے والا بھول جاتا ہے مگر دکھ میں ساتھ دینے والا ہمیشہ یاد رہتا ہے۔