کرتار پور راہداری سے سکھوں کو ان کے مقدس مقام پر آنے کا موقع مل رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نوجوت سنگھ سدھو کو ایک جپھی نے وہ کام کر دکھایا جو دہائیوں سے نہ ہو سکا۔ اس منصوبے کا سارا کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے۔ یہ راہداری کھلنے سے دنیا میں پاکستان کا وہ روشن چہرہ دنیا کے سامنے جائے گا جو آج تک اوجھل رہا۔ ایک طرف بیرونی دنیا ہمیں شدت پسند کہتی ہے تو دوسری طرف پاکستان کا برتاؤ ایسا ہے کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرنے اور یکساں حقوق فراہم کرنے کے حوالے سے روشن خیال ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ وہ ملک جو برسوں شدت پسندی کی آگ میں جلتا رہا، جہاں شدت پسندوں نے آگ اور خون کا کھیل کھیلا، ہماری مساجد کو شہید کیا گیا، ہمارے مدارس پر بم برسائے گئے، ہماری امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، ہماری درگاہوں کو اڑا دیا گیا، ہمارے ننھے منے معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا لیکن اس کے باوجود ہم امن اور مذہبی رواداری کی بات کر رہے ہیں۔ وہ خطہ جہاں کے رہنے والوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی، پرامن ہونے کے باوجود دہشت گرد سمجھا گیا وہ ملک آج حقیقی معنوں میں بڑے دل کے ساتھ دنیا بھر کی سکھ برادری کے لیے ایسا تاریخی کام کر رہا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمسایہ ملک بھارت جو کہ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے کیا وہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی حاصل ہے۔ اور تو اور وہاں تو مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پر ہی قتل کر دیا جاتا ہے، مساجد کو شہید کیا جاتا ہے، عیسائی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے مختصر مدت میں سکھوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے اپنے دروازے کھولے ہیں۔ یہی وہ محبت ہے جس کا پیغام پاکستان دنیا کو دے رہا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والوں کروڑوں سکھوں کے ساتھ محبت کا یہ اظہار کوئی نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے آباؤ اجداد پر ہجرت کرتے وقت بے پناہ مظالم ڈھائے گئے لیکن پاکستان نے مظالم کا جواب امن کے پیغام سے دیا ہے۔
کرتار پور راہدری سے سکھوں کو ان کے مذہب کے مطابق آزادی دی گئی ہے اور یہی وہ روشن خیال ملک ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے یکساں مواقع موجود ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر دنیا بھر سے سکھوں کے جذبات سننے کو مل رہے ہیں سب بہت خوش ہیں۔ دہائیوں سے دل میں کرتار پور کی زیارت کی خواہش رکھنے والوں کی آرزو پوری ہو رہی ہے۔ پاکستان کے اس اقدام کو بھی بھارت کے انتہا پسند منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نریندرا مودی کی حکومت سکھوں کی مذہبی ہمدردی کا رجحان پاکستان کی طرف ہوتا دیکھ کر پریشان ہے۔ اس کے بس میں نہیں کہ وہ بٹن دبائے اور سارا منظر نامہ بدل جائے۔ نریندرا مودی کے بس میں نہیں کہ وہ کرتارپور پر بھی کشمیر کی طرح سخت کرفیو اور لاک ڈاون کر دے۔ اپنی لاکھوں کی فوج کو تعینات کر دے اور سکھوں کو ان کے مذہبی مقام سے دور کر دے لیکن اب چونکہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے نریندرا مودی بے بس ہیں وہ سکھوں کی مذہبی آزادی کو روکنے اور پاکستان انہیں مذہبی آزادی دینے کیلیے عملی اقدامات کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت کی تنگ نظر حکومت کو یہ قابل قبول نہیں ہے ایک طرف جہاں کروڑوں سکھوں کے لیے انکی عقیدت کے پیش نظر راہدری کھولی جا رہی ہے وہیں بھارت میں پاکستان مخالف قوتوں نے اس شکست کا بدلہ لینے کی تیاری شروع کر دی ہو گی۔ وہ امن دشمن طاقتیں چین سے نہیں بیٹھیں گی۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے اور سکھوں کے ساتھ تعاون کرنے کی سزا دینے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ پاکستان کو بھارت کے اس منفی رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ماضی سے زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ سکھوں کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں اور بھارت کو یہ کسی طور قبول نہیں ہے لہذا اپنے ازلی دشمن سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کس انداز میں مذبی رواداری کو فروغ دے رہا ہے، دشمن ملک کے افراد کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے تو دوسری طرف کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے، انہیں تاریخ کے بدترین کرفیو کا سامنا ہے۔ پاکستان کو غلط کہنے والوں کو تعصب کی عینک اتار کر ہمارے اقدامات اور بھارتی مظالم کو دیکھنا ہو گا۔ تمام تر مثبت اقدامات اور نرمی کے باوجود ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی راہداری کوئی بھی عمل کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبا نہیں سکتا، کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کے ساتھ محبت اور جذباتی وابستگی کو کم نہیں کر سکتا، کشمیریوں کے خون کا سودا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی، کسی کو شہدائکے خون کا سودا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ کشمیر شہ رگ پاکستان ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور تعاون ہر پاکستانی کا یقین ہے۔ کشمیر ہماری خون میں دوڑتا ہے کرتار پور راہداری کی سائے میں کشمیریوں کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ یہی وہ وقت ہے جب پاکستان اپنا موقف اور کشمیریوں کے ساتھ اپنی وابستگی کو پہلے سے زیادہ مثبت اور بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ کشمیریوں کو بھارت کے مظالم سے آزاد کروانے کے لیے ہر پاکستانی کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔ افواج پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے انہیں اپنے دیرینہ موقف کے ساتھ کھڑے رہنے اور شہ رگ پاکستان کی حفاظت کے لیے آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ پاکستان کچھ بھی کر لے بھارت کشمیر سے دستبردار نہیں ہو گا اس کا حل صرف اور صرف جنگ ہے۔ کوئی طاقت کوئی سفارتکاری اس جنگ کو نہیں روک سکتی کیونکہ بھارت کبھی بات چیت سے اس مسئلے کے حل کی طرف نہیں بڑھے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024