شہر سے پانچ کلومیٹر … سب جیل
ضلع چکوال جہاں سیمنٹ فیکٹریوں کی وجہ سے ماحول کی آلودگی اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے وہیں اس شہر اور ضلع میں بسنے والے افراد کا ایک بہت بڑ ا اور دیرینہ مسئلہ سب جیل چکوال ہے،یہ جیل جو شہر ی آبادی سے یکسر الگ تھلگ دور جنگل میں واقع ہے وہیں اس طرف جانے کے لیے کوئی باضابطہ سڑک یا ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے قیدی افراد کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،یہ جیل 1998میں قائم کی گئی جس کا کل رقبہ تقریباً 7کنال ہے واضح رہے کہ سات کنال کی جیل کو مرد و خواتین کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، سات کنال میں تین سے چار سو افراد کس طرح رہ رہے ہوں گے جسمیں مینوئل کے مطابق ہسپتال مسجد،واکنگ ٹریک، دھوبی گھاٹ،واش روم اور کھیل کا گرائونڈ بھی شامل ہے، اس کے قیام کے وقت اس میں 140قیدیوں کی گنجائش تھی تاہم بعد میں جیل کی توسیع تو نہ ہوئی مگر قیدیوں کی تعداد میں بدستور اضافہ ہوتا رہا اور اس جیل میں تین سے ساڑھے چار سو افراد تک کو قید رکھا جاتا ہے ،علاقے میں موجود واحد جیل ہونے کی وجہ سے ضلع بھر کے گیارہ تھانوں اور متعدد چوکیوں سے گرفتار کیے ملزمان و مجرمان کو اسی جیل میں قید کیا جاتا ہے،سوائے قتل یا ایف آئی اے کو مطلوب افراد کے تمام گرفتار کیے گئے افراد کو یہاں ہی بند کیا جاتا ہے قتل کے مجرموں کو جہلم جب کے بنکنگ فراڈ اور سائبر کرائم والوں کو ایف آئی اے اسلام آباد لے جاتی ہے،آج سے بیس سال قبل بنی اس جیل میں وقت کے ساتھ توسیع نہ ہونے کی وجہ سے جہاں اس میں قید خواتین بچوں اور مریض قیدیوںکو سخت تنگی او ر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں ایک بہت بڑا عذاب جو ان کے لواحقین کو بھگتنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی کا کوئی عزیز رشتہ دار کسی جر م میں قید ہو کر یہاں پہنچتا ہے تو اس سے ملاقات کے لیے آنے والے افراد کو اول تو جیل کا علم ہی نہیں ہوتاکیوں کہ یہ جیل ایک انتہائی غیر معروف علاقے تقریباً جنگل میں واقع ہے اور جب اس کا اتہ پتہ معلوم ہو جائے تو اس طرف کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً اسپیشل رکشہ یا گاڑی کا بندوبست کیا جاتا ہے جو ان مجبور اور لاچار افراد سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جتنا وقت جیل میں صرف ہونا ہے بکنگ پر لائی گاڑی وہیں موجود رہنی ہے کیوں کہ واپسی کا کوئی معقول ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ گاڑی مالکان من مانی کرتے اور مرضی کے دام وصول کرتے ہیں ،جب خوار ہونے کے بعد یہ لوگ جیل کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ویاں ایک الگ مخلوق سے واسطہ پڑتا ہے جسے ہر ایک شخص کی جیب کا ٹھیک ٹھیک علم ہوتا ہے اور ملاقات کروانے سے قبل ملاقات کے لیے آنے والے کا مکمل شجرہ نسب قوم قبیلہ سمیت اندر موجود قیدی کا جرم بھی پوچھا جاتا ہے جس کے مطابق ان سے معاملات طے ہوتے ہیں یہاں پر کسی سے ملاقات کے لیے گیٹ پر تعینات سنتری بادشاہ سے لیکر ملاقات کے لیے مختص شیڈ تک ہر شخص کی جی حضوری کرنا پڑتی ہے عادی قسم کے افراد تو ان معاملات کو بہتر انداز سے ڈیل کر لیتے ہیں مگر شریف اور سفید پوش لوگوںخصوصاً معصوم بچوں کے ساتھ آئی خواتین کے لیے یہ جاں گسل مرحلہ کسی عذاب سے کم ثابت نہیں ہوتا ،یہاں پر موجود اہلکاروں کو ملاقات کے لیے آنے والے لوگوں کی جہاں دیگر کئی اور مجبوریوں کا اندازہ ہوتا ہے وہیں وہ کرائے پر لی گئی گاڑی کا بھی بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں کہ جتنا لیٹ ملاقات ہو گی ملاقاتی اتنا زیادہ پریشان ہو گا اس لیے یہ بعض اوقات صاحب وزٹ پر ہیں بڑے جج صاحب آئے ہوئے ہیں کا کہہ کر ان لوگوں کی مجبوری سے معاملات نہایت احسن طریقے سے طے کر لیتے ہیں ،کہا جاتا ہے کہ یہاں ہونے والی پر اسرا ر کرپشن کا کوئی ثبوت کسی کو کم ہی ملا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج تک کوئی چھوٹابڑا جیل اہلکارکرپشن اور بدعنوانی سے معطل نہیں ہوا اگر آپ ان کی معطلی یا سزا کی تفصیل ملاحظہ کریں تو تمام سزائیں لیٹ آنے یا غیر حاضری پر دی گئی ہوں گی، کسی بھی اہلکار کو رشوت کرپشن بدعنوانی کسی قیدی یا اس کے کسی عزیز سے بدتمیزی پر نوکری سے برخواست نہیں کیا گیا ہوگا،اس جیل کو شہر کے قریب منتقل کرنے کے لیے متعدد بار میڈیا کے فورم سے آواز اٹھائی گئی جس پرگذشتہ دور میں پنجاب حکومت نے اس معاملے میں کافی سنجیدگی کا مظاہر ہ بھی کیا تھااور نہ صرف ڈی سی چکوال کو شہر کے قریب ترین جگہ مہیا کرنے کا ٹاسک دیا بلکہ جلد تعمیر اورتکمیل کے لیے متعدد محکموں سے تجاویز بھی مانگ لی تھیں مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ جتنی تیزی سے اس جیل کی منتقلی کا شور بلند ہوا اس سے کہیں زیادہ اسپیڈ سے یہ معاملہ کہیں غائب بھی ہو گیا۔ حکومت سے گذارش ہے کہ ضلع بھر کے لوگوں کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کر کے ثابت کر دیں کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ واقعی تبدیلی آ بھی گئی ہے۔