ہائوسنگ سوسائٹیز، زراعت اور چھوٹے ڈیمز
مکرمی! زراعت پاکستانی معیشت کی بنیادی اکائی ہے ملک میں اب بھی زراعت کا 19.5%حصہ جی ڈی پی میں شامل ہے۔ ملکی آبادی کے 42.5%سے کسان حصہ وابستہ ہیں جن پر ملکی زراعت کا انحصار ہے لیکن بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کا ایک بڑا چیلنج سامنے ہے جس کے لئے زرعی زمین کو تو بڑھایا نہیں جا سکتا بلکہ الٹا پانی ، کھاد اور بیج مہنگے ترین کے علاوہ خصوصاً آرھتی کاظالم کردار کہ وہ صرف ایڈوانس پیسے دے کر جنس کا50%حصہ ہتھیا کر کسان کو غریب تر بلکہ نیم جان کر دیتا ہے اس طرح کسان کو محنت شاقہ کے علاوہ اس کی خرچ شدہ لاگت بھی واپس نہیں ملتی گھریلو زبوں حالی سے چولہا نہ جلنے پر وہ سو فیصد مایوس ہو چکا ہے ایسی ننگدستی کا فوری نوٹس لے کر چار جوئی نہ کی گئی تو عنقریب وہ انڈین اور بنگلہ دیشی کسان کی طرح خودکشی کی طرف راغب ہو جائے گا اور اسے فوری آسان قسطوں پر قرضہ نہ دیاگیا تو وہ بے بس ہو کر اس پیشہ کو ہی چھوڑ دے گا تب یہ مسئلہ تمام مسائل کو پیچھے چھوڑ دے گا ۔ مزید برآں ستم ظریفی یہ کہ بے شمار ہائوسنگ سوسائٹیز دن رات بنجرزمین کی بجائے زرعی اور زرخیز زمین کی لاکھوں اور کروڑوں میں رشوت دے کراربوں کمانے کے لئے منظوری لے کر بہت قلیل وقت میں زراعتی زمین کو مکمل طور پر برباد کر دے گا اور زرعی زمین جلد پکے مکانوں کی کالونیوں کی شکل اختیار کرلے گی اور عرصہ بعد جب چھوٹے ڈیم بنیںگے تو زراعت کو ان کے نصف پانی سے بھی کم پانی کی ضرورت رہ جائے گی زیادہ پانی رہائشی مکانات کے گملوں پھولوں پر چھڑکائو صحن اور کاریں دھونے کے کام آئیگاتب ایک خوفناک معاشی ابتری درپیش ہوگی۔ لہٰذا! ہائوسنگ کالونیوں کے لائسنس بورڈ کو بلاتاخیر محکمہ زراعت کے ماتحت کیا جائے ورنہ مجرمانہ غفلت سے لا محدود بربادی لازم ہوگی ۔ جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے (محمد اسحاق مغلپورہ)