پاکستان پر یہ ایک مشکل گھڑی تھی۔ پوراپاکستان بند تھا۔ ٹرینوں کی آمدورفت بھی جزوی طور پر معطل تھی۔ پنجاب اور سندھ کے بڑے شہر جن میں لاہور، کراچی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ ، راولپنڈی اور اسلام آباد شامل تھے ، ایک شدت پسند گروپ کے ہاتھوں یرغمال بن کر ہُو کا عالم پیش کر رہے تھے۔ ان شہروں میں واقع تمام معروف بازار، مارکیٹیں اور ہر قسم کے تجارتی مراکز بند ہو چکے تھے۔ شہروں کی فروٹ اور سبزی منڈیاں اُجڑ گئی تھیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تمام نجی ٹی وی چینلز نے بھی اس حوالے سے ہر قسم کی خبروں کا ’’بلیک آئوٹ‘‘ کر رکھا تھا۔ اس لیے لوگوں کو کچھ زیادہ خبر نہیں تھی کہ کہاں، کیا ہو رہا ہے۔ صرف ایک سوشل میڈیا ہی تھا جس کے ذریعے کافی مقامات پر پرتشدد ہنگاموں کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر جلتی ہوئی موٹر سائیکلیں، کاریں، ٹرک اور بسیں بھی دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک ہیجان تھا۔ ہیجان والی گھمبیر کیفیت تھی جو اس وقت طاری تھی اور ہر کوئی سہما ہوا، خوفزدہ اور سراسیمگی کی کیفیت میں مبتلا تھا، حکومتی رِٹ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہ شدت پسند گروپ ریاست پر حاوی تھا اور ریاست اس گروپ کے شدت پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے تھی۔
سوشل میڈیا پر جب کچھ دل ہلا دینے والے مناظر دیکھے، کئی کاروں، بسوں، ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کو شدت پسندوں کے ہاتھوں جلتے دیکھا تو میں نے کئی جگہ فون کرنے کی کوشش کی کہ حالات سے مکمل آگاہی حاصل کر سکوں۔ لیکن پتہ چلا کہ موبائل بھی خاموش ہو چکے ہیں۔ حکومت نے حفظِ ماتقدم کے طور پر کشیدگی والے شہروں میں موبائل نیٹ ورک کو بند کر دیا تھا۔ رابطے کے سارے سلسلے مفقود تھے اس لیے پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔
یہ سارے حالات اس لیے خراب ہوئے تھے اور شہر شہر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے شیخوپورہ کی رہائشی آسیہ مسیحی کے حوالے سے ایک فیصلہ آیا تھا۔آسیہ مسیحی پر توہینِ رسالتؐ کا الزام تھا۔ وہ گزشتہ دس سال سے جیل میں تھی۔ اُس کے خلاف کئی سال تک ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلا۔ اُس کے خلاف کئی گواہ پیش ہوئے اور بہت سے منحرف بھی ہو گئے۔ بالآخر ٹرائل کورٹ نے آسیہ بی بی کو الزام کی نوعیت کے مطابق سزائے موت کا حکم سنایا۔ اس فیصلے کے خلاف آسیہ بی بی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کے خلاف ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا۔ بنچ نے گواہوں کے ریکارڈ شدہ بیانات میں پائے گئے بہت سے تضادات کی واضح طور پر نشاندہی کی اور مروجہ قوانین کے مطابق اس کا فائدہ ٹرائل کورٹ سے سزائے موت پانے والی اس مجرمہ کو پہنچا ا ور جیسے ہی اُس کی رہائی کی خبر عام ہوئی، تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا۔ تحریک لبیک کے مختلف گروپ اپنے قائد علامہ خادم حسین رضوی کی ہدایت پر ملک بھر میں مختلف مقامات پر پھیل گئے اور پرامن احتجاج کی بجائے پُرتشدد ہنگامے شروع کر دئیے۔ اس دوران حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں نظر نہیں آئے۔ ایک ’’انارکی‘‘ تھی جو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا بھی نہ ہوتا تو ہم یہ دلدوز مناظر دیکھنے سے محروم رہتے اور آج ان حالات کا نوحہ نہ پڑھ رہے ہوتے۔
پاکستان کے چند بڑے شہروں میں تین روز تک جو کھیل کھیلا گیا ۔اس پر سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ حکومت اور تحریک لبیک کے قائدین کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کی رُو سے تحریک لبیک کے ان گروپوں نے شاہراہوں سے اپنا محاصرہ تو ختم کر دیا۔ جس کے نتیجے میں زندگی پھر سے رواں دواں ہوئی اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جن کا جو نقصان ہوا جو کروڑوں میں ہے اُس کا ازالہ کون کرے گا۔ جرم کرنے والوں کو اُن کے سنگین جرائم کی سزا کون دے گا اور اُن کو یہ سزا کیا اور کیسے ملے گی؟ یہ آج کے اہم سوالات ہیں ، اگرچہ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، شیخوپورہ، فیصل آباد اور کراچی کے مختلف تھانوں میں ان انتہا پسندوں کے خلاف 100سے زیادہ سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ جن میں دہشت گردی کی دفعہ 7/ATAبھی شامل ہے۔ مگر اس سارے معاملے کو انجام تک کون پہنچائے گا۔ ان انتہاپسندوں کو سزا ہو بھی سکے گی یا نہیں، یا یہ انتہا پسند ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہو جائیں گے۔ پراسیکیوشن کو اس پر سوچنا اور غور کرنا چاہیے۔ اگر یہ انتہا پسند عبرت کا نشان نہ بنے تو اس طرح کے واقعات دوبارہ دہرائے جا سکتے ہیں۔ ابھی سے پیش بندی کی ضرورت ہے کیونکہ آسیہ بی بی کے مقدمہ کا مدعی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل لے کر پھر سپریم کورٹ سے رجوع کر چکا ہے۔ قواعد کے مطابق نظرثانی کی یہ اپیل وہی بنچ سنے گا جس نے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ سنایا تھا۔ نظرثانی اپیلوں میںکم ہی چانسز ہوتے ہیں کہ درخواست گزار کو ریلیف ملے۔ اگر فیصلہ پھر پہلے جیسا آیا اور آسیہ کی بریت ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ تحریک لبیک والے کیا دوبارہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر آ جائیں گے اور پورا پاکستان بند کر دیں گے۔ حکومتِ وقت کو ابھی سے اس کی تیاری کر لینی چاہیے ورنہ حالات پہلے سے زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔جہاں تک ناموس رسالتؐ کی بات ہے تو اس پر ہماری جان بھی قربان ہے۔ کوئی شک نہ کرے کہ ہمارے جج، جرنیل یا جرنلسٹ کوئی کم درجے کے مسلمان ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ نئی پاکؐ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرنے والے کو معاف کیا جائے۔ اب یہ معاملہ دوبارہ عدالت میں ہے، عدالت کو فیصلہ کرنے دیجیے، جو فیصلہ بھی آئے اُس من و عن تسلیم کیا جانا چاہیے ، اسی میں ہماری بقا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024