قانون کی بالادستی کیلئے شرپسندوں سے رعایت نہ برتنے کا فیصلہ‘ ادائیگیوں کے توازن کا بحران ختم ہونے کا اعلان
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں دہشتگردی کیخلاف آپریشن ردالفساد سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں پاک افغان سرحدی صورتحال، افغان مصالحتی عمل سے متعلق امور زیر غور آئے۔ وزیراعظم نے دورہ چین اور صدر شی جن پنگ اور چینی وزیراعظم سے ملاقاتوں سے متعلق اجلاس کو اعتماد میں لیا۔ سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی معاملات پر بھی غور کیا گیا اور اس میں اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی، خوشحالی، ترقی اور امن و استحکام قانون کی بالا دستی میں ہے۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس تین گھنٹے تک جاری رہا۔ تین گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آسیہ کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جلائو ‘گھیرائو اور نقصانات کا جائزہ لیا جائیگا اور ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا‘ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ملک میں ادائیگیوں کے توازن میں پائے جانیوالے بحران کے دور ہونے کا اعلان کردیا۔دورہ چین کے بعد دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ادائیگیوں کے توازن میں پایا جانے والا بحران اب دور ہوچکا ہے اور مستقل توازن لانے کیلئے برآمدات بڑھانا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ 12 ارب ڈالر درکار تھے، سعودی عرب نے 6 ارب ڈالر فراہم کیے اور باقی کچھ رقم چین سے آئی ہے جس کے بعد پاکستان فوری طور پر بحران سے نکل چکا ہے تاہم توجہ طویل المیعاد استحکام پر مرکوز ہے۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح کا وفد 9 نومبر کو چین جارہا ہے جس میں گورنر اسٹیٹ بینک بھی شامل ہوں گے اور یہ وفد چین میں ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے خدوخال طے کریگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سلامتی خوشحالی‘ ترقی اور امن و استحکام کیلئے قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ یہ قانون ہی ہے جس نے اداروں کے فرائض‘ اختیارات اور عوامی حقوق کا تعین کر رکھا ہے۔ ادارے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں تو غلط فہمیوں اور باہمی بے اعتمادی کی گنجائش نہیں رہتی۔ ماضی میں اداروں کے مابین پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کے ناخوشگوار نتائج نکلتے رہے ہیں حتیٰ کہ معاملات مارشل لائوں تک بھی جا پہنچتے تھے۔ غلط فہمیوں کے نتیجے ہی میں ادارے ایک دوسرے کے مقابل بھی کھڑے نظر آئے۔ مخالفانہ بیان بازی کوئی ماضی بعید کی بات نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کی مسلمہ افادیت ہے جس کے ذریعے ادارے مربوط اور ا ن کے مابین باہمی اتفاق و اعتماد برقرار رہتا ہے۔
ماضی میں حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہوتی رہی ہے۔ آج داخلہ اور خارجہ معاملات کے حوالے سے فوج اور حکومت ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ صرف بیانات ہی نہیں رویوں‘ ماحول اور باڈی لینگویج سے بھی ہو جاتا ہے۔ ان سب عوامل سے مثبت اشارے ملتے اور حکومت و فوج کے ایک پیج پر ہونے کا قوی تاثر ملتا ہے۔ دونوں طرف سے آئین اور قانون کی رو سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ایک دوسرے کو Due respect بھی دی جاتی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں اداروں کے مابین ایسا ہی مثالی کوآرڈی نیشن ہونا چاہیے جبکہ معروضی حالات میں تو یہ ناگزیر ہے۔ کیونکہ ایک طرف مشرقی بارڈر پر ہمارا مکار اور عیار دشمن بھارت شرانگیز کارروائیوں سے باز نہیں آتا‘ دوسری طرف اسی دشمن کے ایماء پر مغربی بارڈر بھی غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ پاک فوج کو دونوں سرحدوں پر نظر رکھنا ہوتی ہے اور پھر پاک فوج ملک کے اندردہشت گردوں کے ساتھ بھی برسر پیکار ہے۔ سی پیک دشمن کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ وہ اسے سبوتاژ کرنے کیلئے ناپاک سازشوں کے جال بننے میں مصروف رہا ہے۔ اسکی طرف سے سی پیک پر کام کرنیوالے چینی انجینئرز اور ورکرز پر حملے بھی کرائے جارہے ہیں۔ سی پیک کی سکیورٹی پاک فوج کے ذمے ہے۔ یہ صورتحال جنگی حالات سے کم نہیں‘ ایسے میں قوم کا پاک فوج کے شانہ بشانہ اور فوج و حکومت کا ایک پیج پر ہونا نہایت ضروری ہے۔
تحریک انصاف حکومت میں آئی تو اس کیلئے معاشی صورتحال ایک آزمائش تھی۔ فوری طور پر ملک کو معیشت کی دلدل سے نکالنا تھا مگر کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ جن دوستوں سے تعاون کا یقین تھا‘ انکی طرف سے شروع میں سردمہری تو نہ دکھائی گئی البتہ گرم جوشی کا بھی فقدان تھا۔ معاملات تیزی سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی طرف جارہے تھے۔ ایسے میں حکومت کی تشویش بجا تھی۔ سعودی عرب کو پاکستان کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی تو وزیراعظم کو ایک بار پھر دورے کی دعوت دیدی۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور دیگر بڑے ممالک نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا جبکہ پاکستان نے ایک آزاد اور خودمختار ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کانفرنس میں شرکت کی۔ خشوگی کے قتل کے بعد سعودی عرب عالمی دبائو میں اور تنہائی کا شکار تھا۔ پاکستان نے اس نازک موقع پر اس کا ساتھ دیا تو سعودی عرب نے بھی تعاون میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 12‘ ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا گیا مگر معیشت کی مضبوط بنیادوں کیلئے پاکستان کو مزید ایسے پیکیج کی ضرورت تھی۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف قرض خواہوں کا کھلے بازوئوں اور وسیع القلبی سے استقبال کرتا ہے۔ مگر حکومت اسکے چنگل سے بچنے کیلئے اور دوستوں سے تعاون حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہی اور اب بھی ہے۔
چین اور پاکستان کے دہائیوں سے مضبوط و مستحکم تعلقات ہیں‘ چین نے سی پیک منصوبے پر پاکستان پر مکمل اعتماد کیا۔ پاکستان چین سے دور ہونا چاہتا ہے اور نہ چین سی پیک منصوبے کے اس بلند سطح پر آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں دراڑ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ نئی حکومت کی طرف سے یقیناً ایسے رویے سامنے نہیں آئے جن سے سی پیک میں عدم دلچسپی یا لاتعلقی کا اظہار ہوتا ہو۔ مگر چین پاکستان اور نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اور رابطوں کو مزید مضبوط اور مربوط بنانا چاہتا تھا۔ اسکے سفیر کی وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے تواتر سے ملاقاتیں ہوئیں‘ وزیراعظم کو دورے کی دعوت دی گئی۔ عمران خان نے بیرونی دوروں سے گریز کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے دیگر چیلنجز کے ساتھ معاشی زبوں حالی تو تشویشناک ہوچکی تھی۔ سعودی عرب کے بعد وزیراعظم نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ اس دورے سے روانگی سے قبل آسیہ کیس کا فیصلہ آیا جس پر کچھ لوگوں کی طرف سے طوفان اٹھادیا گیا۔ غیرملکی دوروں پر ملاقاتوں‘ معاہدوں اور دیگر معاملات کیلئے وزیراعظم اور انکے وفد کا جن مقاصد کیلئے دورہ کیا جارہا ہو ان پر یکسو ہونا دورے کی کامیابی کی اولین شرط ہوتی ہے۔
وزیراعظم ابھی پاکستان میں ہی تھے کہ جلائو گھیرائو شروع ہوگیا۔ ٹریفک جام‘ بازار اور بند شاہراہوں پر گاڑیوں کو نذر آتش کیا جانے لگا۔ احتجاج کا کس کو حق نہیں مگر کسی کی جان لینا‘ املاک کو تباہ کرنا ایمبولینسوں کے راستے روک لینا مریضوں کے ہسپتال ملازمین اور مزدوروں کیلئے انکے دفاتر اور بچوں کے سکول جانے کو ناممکن بنادینا احتجاج نہیں ظلم اور جرم ہے۔ ایسا مملکت خداداد میں ناموس رسالت کے نام پر ہوتا رہا۔ حکومت کی دانشمندی سے اس معاملے نے طول نہیں پکڑا۔ ایک معاہدے کے تحت احتجاج ختم کرادیا گیا۔ اپوزیشن نے پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل میں حکومت کو سپورٹ کیا۔ بہرحال وزیراعظم کا دورہ چین کامیاب رہا جبکہ جلائو گھیرائو کرنے والوں نے دورے کے ثمرات سے ملک و قوم کو محروم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے جلائو گھیرائو کے نقصانات کا جائزہ لیا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کیخلاف کارروائیاں جاری اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ احتجاج کی آڑ میں امن و امان کو تہہ و بالا کرنیوالوں کیخلاف ریاست کا ایکشن میں آنا ضروری تھا۔ اس معاملے میں اداروں‘ حکومت اور قوم کے مابین مکمل اتفاق ہے۔ بہتر ہے امن کی دشمن تنظیموں پر مستقل پابندی لگا دی جائے۔
سعودی عرب کی طرح چین سے بھی پیکیج کی امید کی جارہی تھی۔ اس کا اعلان نہ ہونے سے کچھ حلقے مایوسی کا اظہار کررہے تھے۔ وزیر خزانہ اسدعمر کا بیان حوصلہ افزاء تھا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ 15 تجارتی و دفاعی معاہدے بھی ہوئے۔ وزیر خزانہ کے بقول چین نے کچھ معاملات اخفا میں رکھنے کی درخواست کی۔ آج وزیر خزانہ نے واضح اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا ادائیگیوں کا بحران ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر ادائیگیوں کے بحران سے نکلنے کی ضرورت تھی۔ اس بحران سے ہم نکل گئے ہیں تو گویا معیشت کی بنیاد مضبوط ہوگئی ہے۔ معیشت کو مضبوطی و استحکام کے عروج پر لے جانے کیلئے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات پر فوکس کیا جائے جس کیلئے دہشت گردی میں کمی اور بجلی کی پیداوار میں اضافے کے باعث حالات سازگار ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چین نے کچھ رقم دی ہے۔ ذرائع اس رقم کی مالیت چار ارب ڈالر بتا رہے ہیں جبکہ مزید معاملات طے کرنے کیلئے وزارت خزانہ کا وفد کل جمعہ کو چین جا رہا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024