جمعرات ‘ 29؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 8 ؍ نومبر2018ء
فسادیوںکو خلا میں بھیجنا مسئلے کا آسان حل ہے: چودھری فواد
ہمیں اپنے وزیر اطلاعات و نشریات کی دبنگ شخصیت ہونے پر کوئی شک وشبہ نہیں۔ بس ڈر ہے تو اس بات کا کہ وہ جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں ان کے مخالفین اسے تول رہے ہوتے ہیں۔ بس اسی ناپ تول میں حساب دوستاں چکتا کرنے پر تل جاتے ہیں۔ گزشتہ روز فواد چودھری نے جو گل فشانی کی اس کو اپوزیشن والوں نے آتش فشانی بنا کر دکھا دیا۔ اب اپوزیشن والوں نے اسمبلی میں پریس کانفرنسوں میں فسادیوں کو خلا میں بھجوانے کی جو تشریح کی۔ اس سے سب بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ رہی بات خلا میں بھجوائے جانے والے لوگوںکی تو ان کی محبین اور متوسلین بھی آستین اُلٹ کر خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ اب خلا میں بھجوانا نہ تو کوئی غلط بات ہے نہ غلط اشارہ۔ اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت ہی نہیں ابھی تک تحریک انصاف والوں کے پاس وہ ٹیکنالوجی نہیں آئی جس کے تحت وہ کسی کو خلا میں بھجوا سکیں۔ فی الحال تو ہم صرف زمین کے مدار میں خلائی سٹیشن بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب اگر ان سیارچوں میں یہ فسادی بھی بھر کے تحقیقات کے لئے زمین کے مدار میں روانہ کر دئیے جائیں تو اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم چاند دیکھنے کی حد تک معاملات بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ کیا معلوم خلا میں پہنچ کر چاند دیکھنے میں آسانی ہو اورمولانا پوپلزئی جیسے دو چاند دکھانے والوں کی دکان بند ہو سکے۔ ویسے اس بیان نے میدان سیاست سے لے کر میدان خطابت تک میںجو شرارے بھر دئیے ہیں ان سے تو اس سرد موسم میں ہاتھ تاپنے کا مزہ آ رہا ہے۔ فسادی اور خلا کا میل ملاپ سعد ہو گا یا نہیں اس کا پتہ بعد میں چلے گا۔
٭٭٭٭٭
تجاوزات کے خلاف آپریشن ناکام۔ سڑکوں بازاروں میں پھر تجاوزات قائم ہو گئیں
ابھی لاہور، کراچی، راولپنڈی، ملتان، اسلام آباد میں حکومت کے حکم پر تجاوزات کے خلاف بھرپور مہم شروع ہوئی دھڑا دھڑ میڈیا پر فلمیں چلیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلا وہی ڈھاک کے تین پات۔ صبح سے شام تک تجاوزات گرائی گئیں۔ ریڑھیاں، ٹھیلے، پھٹے اُٹھائے گئے مگر رات گزرنے کے بعد صبح ہوتے ہی جب لوگ سوکر اُٹھے تو وہی تجاوزات اپنی بہار دکھا رہی تھی جو بدنما داغ کی طرح ہر شہرمیں ہر بازارمیں ہر سڑک پر شہر کی خوبصورتی کو گہنا رہی ہیں۔ کیا تجاوزات مافیا اتنا دلیر ہے کہ وہ حکومتی رٹ کو بھی قائم ہونے نہیں دیتا کسی قانون کا سزا کا انہیں خوف نہیں رہا۔ اب اس کا حل دیکھنا ہے حکومت کیا نکالتی ہے۔ اپنے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے حکم پر قائم رہتی ہے یا کہ تجاوزات مافیا کے آگے ہتھیار ڈالتی ہے۔ دکانداروں نے دکانوں کے آگے فٹ پاتھوں اس کے آگے سڑک تک کو مائی باپ کا مال سمجھ کر ہضم کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ پر پھٹے والے اور سڑک پر دکان کے سامنے ریڑھی والوں کو منتھلی کرائے پر جگہ دے کر قبضہ کر رکھا ہے۔ سڑکیں گلی بن چکی ہیں۔ ٹریفک میں خلل اپنی جگہ تجارتی مراکز کے بازاروں اور گلیوں میں تو پیدل چلنا محال ہو چکا ہے۔ اب جس دکان کے آگے تجاوزات دوبارہ قائم ہیں ان پھٹے اور ریڑھی والوں کے ساتھ ساتھ دکان والوں کو بھی داخل دفتر میرا مطلب ہے داخل زنداں کرنے سے ہی معاملہ حل ہو سکے گا ورنہ اِدھر آپ شام کو تجاوزات گرائیں اُدھر صبح ہوتے ہی وہ دوبارہ قائم ہو جائیں گی۔ صرف سزا اور جرمانہ ہی اس پر روک لگا سکتا ہے ۔
٭٭٭٭٭
اے ٹی ایم ہولڈر اپنا پاس کوڈ تبدیل کر لیں : سٹیٹ بنک
پاکستانی بنکوں پرسائبر کرائم حملہ نے تو تھرتھلی مچا دی ہے۔ کبھی کوئی کبھی کوئی دل دہلا دینے والا بیان اس طرح سامنے آتا ہے کہ وہ بے چارے غریب اے ٹی ایم ہولڈر بھی پریشان ہو جاتے ہیں جن کے اکائونٹ میں سوائے تنخواہ کے کچھ بھی نہیں آتا۔ وہ تنخواہ بھی دوپہر تک آتی ہے تو گھنٹے بعد یا شام تک بے چارے تنخواہ دار لوگ نکال لیتے ہیں۔ مسئلہ تو ان لاکھ پتی ، کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں کا ہے جن کے اکائونٹ قارون کے خزانے کی طرح ہروقت بھرے رہتے ہیں۔ سچ کہیں تو چھلکتے رہتے ہیں۔ احتیاط کی ضرورت ان کو ہے۔ اب سٹیٹ بنک کی اس نصیحت کے بعد کہ اے ٹی ایم ہولڈرز اپنا پاس کوڈز تبدیل کریںلوگوں کو مزید پریشان کر دیا اب بھلا عام اے ٹی ایم ہولڈر کوکیا پتہ یہ پاس کوڈ کیا بلا ہے۔
زیادہ تر عام خواندہ قسم کے لوگ بھی بڑی تعداد میں یہ کارڈ استعمال کرتے ہیں وہ بے چارے تو خوفزدہ ہی ہو گئے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی جمع پونجی عزیز ہوتی ہے اگر یہ بنکوں میں بھی محفوظ نہیں تو پھر کیا ایک بار پھر وہی دور واپس لانا پڑے گا کہ ہر کوئی اپنی جمع پونجی گھڑوں ،مٹکوںمیں بھر کر زیر زمین میںدبا دیا کرے تاکہ کوئی چوری نہ کر سکے۔ عام لوگ تو یہ کر لیں گے مگر یہ ارب پتی کروڑ پتی کیا کریں گے۔ شاید اس کا حل انہوں نے یہ نکالاہے کہ ملک بھر میں نجی لاکرز کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ یہ جدید دور کے مدفن ہیں گڑھے اور تہہ خانے جن میں یہ اپنا مال و متاع چھپا کر رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ گھر میں چور ڈاکو اور چھاپوں کا خطرہ لگا رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
چودھری نثار کا میاں نواز شریف کو پہچانے سے انکار
نجانے وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جو مدتوں کے یارانے پل بھر بھول جاتے ہیں ان کی اس ادا پر
’’گوذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے ‘‘
والا شعر لبوں پر مچل جاتا ہے۔ جب میاں صاحب حکومت میں پردھان منتری تھے تو چودھری نثار بھی وزارت داخلہ پر براجمان تھے۔ آخری ایام میں دونوں کے درمیان کچھ ٹھن سی گئی۔ ٹھنی بھی ایسی کہ اس کی ٹھناٹھن میڈیا کے بازاروں میں تبصروں کی تھاپ پر گھنگرو باندھے رقص کرتی نظر آنے لگی۔ اب نہ میاں جی حکومت میں ہیں نہ نثار جی کی وزارت۔ مگر پھر بھی وہ گرہیں کھل نہ سکیں جو عام طور پر دانتوں سے ہی سہی مگر کھل جایاکرتیں ہیں۔ گزشتہ روز جس طرح عدالت میں صحافی نے نثار صاحب سے کہا کہ انتظارکریں میاں صاحب بھی آ رہے ہیں تو چودھری جی نے کس روکھے انداز میں سوال کر ڈالا کہ کون میاں صاحب۔ دوستوں میں اتنی دوری وہ بھی تب جب مصائب کا ابتلا کا دور جاری ہے۔ کچھ اچھا نہیں۔ مگرکیا کیجئے وہ کہتے ہیں ناں
؎تیرے ماتھے پہ شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
یہ گرہ اب کے میرے دل میں لگی ہو جیسے
تو یہ دوریاں کون مٹا سکتا ہے۔