پاکستان کے دشمنوں نے ایک بار پھر واہگہ بارڈر کو آگ اور خون سے نہلا دیا۔ پاک فوج دہشتگردی کے خاتمے کا عزم لئے وزیرستان میں نبردآزما ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی سبیل کی جا رہی ہے۔ اس بات کا پہلے ہی اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ دہشتگرد پر امن شہروں کو اپنا ٹارگٹ بنائینگے۔ اس مقصد کےلئے سول حکومت کے تابع ایجنسیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے فول پروف نظام قائم کرتیں مگر ہماری حکومت کو تو صرف بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی فکر ہے۔ دہشت گردی سے بچنے کیلئے اعلیٰ حکام کے دفاتر اور رہائش گاہوں کو ’ نو گو ایریا‘ بنا کر گویا اپنا فرض پورا کر لیا۔ عوام مریں یا جیئیں، اسکی انھیں کوئی پروا نہیں۔ البتہ چند چوکیاں بنا کرسادہ لوح سفید پوش عوام کو لوٹنے والے اہل کار ضرور مقرر کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سابقہ حکومت بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے کیلئے ہر ممکن جتن کرتی رہیں۔ مغرب کے اشارے پر بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے پر کئی بار اصولی غور بھی کیا جاچکا ہے۔ ن لیگ کی موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کیلئے بیتاب نظر آتی ہے۔ میاں صاحب نے تو جدہ میں اپنی سٹیل ملز میں بھارت نوازی کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے بھارتی شہریوں کو ملازمتیں دینے سے بھی ذریغ نہ کیا تا کہ مغرب کو ان پر کوئی شبہ نہ رہے۔ شاید پاکستان کے یہ حکمران تاریخ کا یہ سبق بھول گئے ہیں کہ دوسروں کی بیساکھی کے سہارے حکومت نہیں کی جا سکتی۔ اگر تاج مل بھی جائے تو وہ دوسروں کے اشاروں کے تابع ہی رہتا ہے۔ اور پھر جب دشمن ہمیں تباہ کرنے پر تلا ہو۔ پر امن شہروں کو تخریب کاری اور دہشت گردی کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہو۔ جنت نظیر کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہو۔ مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جائے اور مذاکرات کی میز پر نہ آنا چاہتا ہو تو امن کی خواہش کا اظہار کرنا بھی سراسر بیوقوفی اور حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ یہی سب کچھ بھارت پاکستان کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا شکار بھی ہم ہو رہے ہیں اور ہم پر ہی دہشت گردی کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو بھاری مقدار میں بھارتی اور نیٹو کا اسلحہ کون سپلائی کرتا ہے؟ سوات آپریشن میں بھی بھاری تعداد میں نیٹو اور بھارتی اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ صاف نظر آتا ہے یہ پاکستان کے راستوں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے سے گزرنے والے نیٹو کے ہزاروں اسلحہ بردار کنٹینرز کا کمال ہے جن کا تقسیم کردہ اسلحہ پاکستان ہی میں دہشت گردی کا باعث بنا۔ ہمیں سوچنا ہوگا، امریکہ کے داخل ہونے سے پہلے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک انتہائی پر امن تھے۔ صرف لبنان میں تین قوتیں نبردآزما تھیں۔ عراق میں مثالی امن تھا۔ آج ان ممالک میں امریکہ کے اثرات سے دہشت گردی کو ہوا مل رہی ہے۔ امریکہ کرنل قذافی کا کھلا دشمن تھا۔ اسکے مخالف باغیوں کو اسلحہ کس نے فراہم کیا تھا۔ شام میں حکومت کو للکارا جا رہا ہے۔ مغرب کی ٹیکنالوجی پر بالادستی اور اسکے چوکس سیٹلائیٹ کی موجودگی میں کس طرح ان اسلامی ممالک میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور پھر یہ سب کچھ اسلامی ممالک میں ہی کیوں ہو رہا ہے۔اس تمام سازش سے کروسیڈ کی بو آ رہی ہے۔ان واضح حقیقتوں کو جانتے بوجھتے ہوئے نظر انداز کر دینا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ عالمی استعمار دہشتگردی اور تخریب کاری کی وارداتوں سے مسلم امہ کے عزم کو توڑنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ سانحہ واہگہ بارڈر پر 60 افراد کے جان بحق ہونے کے باوجود زندہ دلان لاہور کا جذبہ قابل دید تھا۔ سیکیورٹی اداروں کے منع کرنے کے باوجود لاہوریوں کی بڑی تعداد نے پریڈ دیکھی۔ اس موقع پر کور کمانڈر نے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہمارے عزم کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔ اتنی بڑی تعداد میں اموات کے بعد یہاں سناٹا ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے سرحد پار اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں سانپ سونگھا ہوا ہے۔ قوم کے اسی جذبہ حریت کو حکمران اپنی طاقت بنا لیں تو بڑی سے بڑی مشکل اور بڑے سے بڑا ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب حکمران ہی تخت کیلئے سب کچھ قربان کر دینے پر تلے ہوں تو قوم کا یہی جذبہ حریت دو کوڑی کا ہو جاتا ہے۔ قوم کے اس جذبہ کو سرد کرنے کےلئے دشمن چالیں چل رہا ہے۔ وہ ہمارے جذبہ کو کچلنے کےلئے ہمیں دین سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ مگر حکمران اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ وہ نصاب میں سے ایسی باتیں حذف کرنے کے درپے نظر آتے ہیں جنکے ذریعے ہماری آئندہ نسل اپنے قومی ہیروزسے آگاہ ہوتی ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی قیادت میں کیا جا رہا ہے۔ آخر میاں صاحب کیوں بھارت کو موسٹ فیورٹ ملک قرار دینا چاہتے ہیں۔ انھیں آزادانہ تجارتی راہداری مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران رسول پاکﷺ کی مدنی زندگی پر ایک نظر ضرور ڈالیں۔ جس میں آپ نے 86 غزوات اور جنگی مہموں میں حصہ لیا۔آپ نے قریش کے قافلوں کو روکا۔ جو مال تجارت کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوط کرکے اسلامی ریاست ’مدینہ‘ کو مٹانا چاہتے تھے۔ گریٹر اسرائیل اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے عزائم بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ وہ روس کی نو آزاد ریاستوں سے وسائل ہڑپنے کیلئے پاکستان سے راہداری چاہتے ہیں۔ جس کی تائید عالمی استعمار بڑی شدومد سے کر رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اپنے پیارے نبی کی زندگی سے سبق نہ لیا تو میاں صاحب: یاد رکھیں یہ آپ کیلئے قطعی آخری موقع ہے۔ قوم کے جذبہ حریت کو اپنی طاقت بنائیں ورنہ مستقبل کا مورخ آپ کو ایک ناکام اور حسرت زدہ سیاستدان کے نام سے یاد کرےگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024