طالبان قیادت افغانستان میں ہے، مذاکرات کیسے آگے بڑھیں گے: سیاسی رہنما
اسلام آباد (بی بی سی+ نیٹ نیوز) مولانا فضل اللہ کا تحریکِ طالبان کا نیا امیر مقرر ہونے کے بعد حکومت سے مذاکرات سے انکار کے پیشِ نظر سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ طالبان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنا آسان نہیں ہوگا۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما راجہ ظفرالحق نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ فضل اللہ سخت گیر موقف رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کے مقرر ہونے کے بعد مذاکرات سے انکار کا اعلان متوقع تھا۔ انہوں نے ملا فضل اللہ کے طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلے سخت گیر موقف رکھنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ جن حالات میں ان کو مقرر کیا گیا اور پھر آج طالبان کی طرف بیان جاری کیا گیا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار نہیں تو اس کی توقع کی جا رہی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس صورتِ حال میں حکومت کی کیا حکمتِ عملی ہوگی تو راجہ ظفرالحق نے کہا کہ جو مینڈیٹ آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کو دیا گیا تھا اس کے ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی پھر ان کے ساتھ صلاح مشورے کے لیے رابطے کرنے پڑیں گے جس کے فوکل پرسن چودھری نثار علی خان ہیں۔ انہوں نے حالات کی نزاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے بہت کوشش کی گئی تھی لیکن ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے واقعے کی وجہ سے معاملہ بہت گھمبیر ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں وقت لگے گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ مولانا فضل اللہ کا کالعدم تحریکِ طالبان کا امیر مقرر ہونے کے بعد وہ کیا پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں کمی ہونے کی توقع رکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کمی کی تو بحرحال امید نہیں رکھنی چاہئے لیکن یہ ہے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔ مذاکرات کی حامی جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی مولانا فضل اللہ کا کالعدم تحریکِ طالبان کے امیر بننے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو مشکل عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جے یو آئی(ف) کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کالعدم تحریکِ طالبان کے نئے سربراہ مولانا فضل اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں مشکل یہ ہے کہ اگر طالبان کی قیادت افغانستان میں ہے تو مذاکرات پر سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح مذاکرات آگے بڑھیں گے۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کے لیے ماحول بہت خراب ہو گیا۔ طرفین کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ خیبر پی کے کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی موجودہ حالات میں طالبان سے مذاکرات کے لیے پر امید نظر نہیں آتی۔ عوامی نشینل پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان جو ماضی میں خیبر پی کے کی صوبائی حکومت اور سوات میں طالبان کے درمیان مذاکرات میں براہ راست شامل رہے نے بی بی سی کو بتایا انہیں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ جو زمینی حقائق ہیں اس میں مجھے مذاکرات ہوتے نظر نہیں آتے۔ اگر حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کر سکتے ہیں تو کر لیں لیکن مجھے اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ زاہد خان حکومت کی طرف سے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے مذاکرات شروع کرنے کے دعوؤں کو بھی رد کیا اور دعویٰ کیا کہ نہ تو حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی کمیٹی بنائی گئی تھی نہ طالبان سے کوئی رابطے کیے گئے تھے۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ ان سے کوئی امیدیں وابسطہ نہیں کرنی چاہییں۔ طالبان کا اپنا ایجنڈا، کوئی بھی سربراہ بن جائے وہ اپنے ایجنڈے پر چلے گا اور اسے آگے بڑھائے گا چاہے وہ فضل اللہ ہو یا حکیم اللہ تھا۔