پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر امریکہ میں ہونیوالے 11 ستمبر 2001 کے حملے اور اسکے ردِ عمل میں افغانستان میں شروع کی جانیوالی جنگ کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت ہمارے گردو نواح میں شروع کی جانیوالی یہ جنگ یقینا ہماری نہ تھی لیکن اسوقت کی حکومت کی طرف سے عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی بدولت یہ جنگ پاکستان کے طول و عرض میں پھیل گئی اور آج تک رُکنے کا نام نہیں لے رہی اس ہولناک جنگ میں چالیس ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہمارے سے زیادہ بھاری قیمت دنیا کی کسی قوم نے ادا نہیں کی آج اس جنگ کو باوجوہ ہماری جنگ بنا دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کو ترجیح دی۔ جس کی حمایت ملک کے تمام سر کردہ سیاسی جماعتوں او ر مسلح افواج نے بھی کی۔ 9 ستمبر 2013 کو آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کو اس سلسلے میں تمام متحرک گروپوں سے مذاکرات کا مکمل اختیار اور مینڈیٹ دیا۔ گزشتہ سات ہفتوں سے ان مذاکرات کو شروع کرنے کیلئے کافی محنت اور لگن سے کام کیا گیا ۔ چونکہ شدت پسندوں کے مختلف دھڑے اپنے اپنے نظریات اور مقاصد رکھتے ہیں‘ لہذا حکومت کو اُن سے رابطہ کرنے،مذاکرات کا روں کا انتخاب کرنے اور چند دوسری اہم تفصیلات کو Finalize کرنے میں وقت درکار تھا جس کی بنا پر یہ ابتدائی مراحل یقینا مشکل اور نازک تھے۔ آپس کے فاصلے، ماضی کے تجربات اور بد گمانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک میز پر بیٹھنا بھی اتنا آسان نہیں لیکن حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں،پاک فوج اور اہم علماء اکرام کی معاونت اور مشاورت سے یہ ابتدائی مراحل کافی حد تک تہہ کر لیے جو کہ یقینا ایک اہم کامیابی تھی۔ شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ 2 نومبر کو تہہ پایا،لیکن اس سے ایک روز قبل یکم نومبر کو ہونے والے امریکی ڈرون حملے نے سارے عمل کو تہہ و بالا کر دیا۔ وزیرِ اعظم کے حالیہ دورہِ امریکہ نے امریکی حکومت نے کھل کر یہ عندیہ دیا کہ وہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے اپنے ملک میں امن قائم کرنے کیلئے مذاکرات کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس عمل میں ضروری مدد دینے کو بھی تیار ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکومت اور عوام یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب تھے کہ کم ازکم مذاکرات کے اس عمل کے دوران امریکہ ڈرون حملے روک دیگا کیونکہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ اور مطالبہ رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ان ڈرون حملوں کے نتیجوں میں دہشت گردی اور شدت پسندی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے ایسے اہم موقعہ پر اس امریکی ڈرون حملے کو مذاکرات کے عمل پر ڈرون حملہ قرار دینا (ایک صحیح سوچ)ہے۔
دُنیا کے ہر ملک کو اپنے مفادات اور معروضی حالات کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے اگر امریکہ اپنے ملک میں ہونیوالی دہشت گردانہ کاروائی کے ردِ عمل میں آزادی اور خود مختاری کے اصولوں کے بر خلاف دنیا کے طول و عرض میں آگ و خون کا کھیل کھیل سکتا ہے تو ہم اپنے ہی ملک میں جاری اس خوفناک جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے۔ دہشت گردوں کیخلاف فوجی کاروائی کر کے اُنہیں اُن کی پناہ گاہوں سے نکالنا فوج کیلئے کوئی مشکل کام نہیں لیکن وسیع تر ملکی مفاد میں فوج نے امن کے اس عمل میں حکومت کا بھر پور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے باوجود اسکے کہ بہت سارے موقعوں پر دہشت گردی کی مسلسل کاروائیوں کے ذریعے فوج کو اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی گئی۔ امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے امن کے اس عمل کو شدید دھچکا لگا ہے۔
حکیم اللہ محسود گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کو مطلوب تھا لیکن امریکہ نے مواقع ملنے کے با وجود کبھی بھی اُسے نشانہ بنانے کی سنجیدہ کوشش نہین کی۔ TTP کبھی بھی امریکہ کا پہلا ہدف نہیں رہی کیونکہ اس کے اہداف او ر مقاصد پاکستان میں تھے جو کہ یقینا امریکہ، بھارت سمیت ہمارے دوسرے مخالفین اور دشمنوں کے تناظر میں یہ حملہ کر کے امریکہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں دیرپا امن قائم ہو او ر پاکستان کی فوج اس جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد اپنے ازلی دشمن ہندوستان کی طرف توجہ دے۔ ماضی میں بھی جب کبھی امن معاہدہ کیا گیا یا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے منسلک تمام شدت پسند رہنمائوں کو امریکہ کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جیسا کہ شکائی معاہدے کے بعد نیک محمد اوروانا کے مقامی کمانڈر مولوی نذیر کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ ان کاروائیوں سے نہ صرف غیر یقینی میں اضافہ ہوا بلکہ بد اعتمادی بھی بڑھی۔ وزیرِ داخلہ کی جانب سے اس صورتحال کے تناظر میں پیش کیا جانے والا حکومتی موقف پاکستانی عوام کی صحیح ترجمانی ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
اس صورتحال میں تمام ملک دشمن قوتوں اور عناصر کے عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ ایسے میں وزیرِ داخلہ کی طرف سے تمام شدت پسند گروہوں کو صبر و تحمل کی تلقین اور مذاکرات آگے بڑھانے کی اپیل بھی انتہائی اہم اور قابل تحسین ہے کیونکہ اب یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس طرح کی کاروائیاں حکومت اور فوج کی طرف سے نہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے کی جارہی ہے جن کا مقصد ہمیں آپس میں مسلسل لڑاتے رہنا ہے تا کہ ہم پستی اور پسماندگی کی طرف چلتے رہیں۔ اس سازش کو سمجھنا اور بے نقاب کرنا نہ صرف حکومت بلکہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں،متحرک گروہوں،سول سوسائٹی، میڈیا اور من حیث القوم ہم سب کا فرض ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ او ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وا ٓلہِ و سلم کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تمام نقصانات اور اشتعال انگیزیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عفو و در گزر سے کام لیں اور فساد میں امن کی راہ تلاش کرنے کیلئے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024