دشمن نے اپنے گھیرے کو گھما کر شاطرانہ انداز میں تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ بین الاقوامی سازش کا شکار ہمارا وطن عزیز اب تیزی سے خاموش جنگ کا نشانہ بنتا جا رہا ہے۔ دشمن نے اپنے زرخرید غلاموں کو بیدار کردیا ہے کہ نئی چومکھی لڑائی میں داخلی دفاع کو کمزور ترین کردیا جائے اور اندر باہر سے دشمن کی بولی اس تیز رفتاری سے بولی جائے کہ نشیمن کا ہر تنکا جلنے کیلئے ازخود تیار ہو جائے۔ آگ اتنی تیزی سے بھڑکے کہ محتاط ہونے کا تکلف بھی باقی نہ رہے۔ جلتی آگ میں تو کوئی بھی ہاتھ بڑھانے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ پاکستان دشمنی کی بین الاقوامی آگ اب درون آشیاں تک پہنچ گئی ہے۔ لڑائی کا انداز بری طرح سے تبدیل ہوا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں کہ…ع
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
ڈرون حملوں کا سیاسی جواز اور اخلاقی سبب پھر زورآوری کی دھونس نے ہمیں سوچ کی اس بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ ہم یا سامنے کی مزاحمتی دیوار توڑ کر دشمن کی فسوں کاری پر ضرب مومنانہ کا آخری وار کردیں یا پھر اس احتیاط سے واپس لوٹیں کہ نئے جہاں کی آبادی کا عزم بالجزم کئے اپنی نئی صف بندی کا اہتمام کریں۔ بہت احتیاط اور بہت ہی احتیاط کا یہ تقاضہ ملت کے شعور کا کڑا ترین امتحان ہے۔نئی صف بندیوں میں داخلی سیاست بہت اہم کردار رکھتی ہے اور یہ سب کچھ تصحیح نیت کے ساتھ یہ ممکن ہے اور ہر طبقہ حیات کی دیانتدارانہ شمولیت سے یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔ ہمارے سیاسی رہنما دل کی دنیا میں ذرا جھانکنے کی ہمت مردانہ کریں تو اسباب کو بھی قوت نصیب ہوگی اور احوال میں بھی خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوگا۔ دراصل احساس کی نوعیت مختلف ہے۔ یہ احساس تو سب کو ہے کہ ایک ظالم بھیڑیا عمارت کے صدر دروازے پر آنکھیں گاڑے اور پنجے بچھائے ہوئے بیٹھا ہے اور پوری طرح سے گھات میں ہے۔ احساس کا یہ مرحلہ اور تقسیم نازک ترین اور نتائج کی تربیت کے لحاظ سے اہم ترین ہے۔ اس پر بہت ہی احتیاط اور خوش نیتی سے جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے، کون اہتمام فساد و شر کی رسی تھامے ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے آگ کے شعلوں کو پوری توانائی سے ہوا دے رہا ہے۔ اسے ہمارے ملک کا بچہ بچہ جان گیا لیکن اس شیطانی کھیل کی کڑیاں کہاں کہاں سے مربوط ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک تو ہمارے حکمرانوں کو ہی بجا طور پر ہے ہمارے حکمران بھی تو کچھ عوامی ہیں اور کچھ غیر عوامی ہیں۔ عوامی اس لئے ہیں کہ وہ عوام سے ووٹ لیتے ہیں، غیر عوامی اس لئے کہ معیشت اور سیاست کا سبق وہ دارالخواص سے پڑھتے ہیں اور پھر اپنی اس درسگاہ کے ہر فرد کے سامنے آداب کی بجاآوری میں بھی ان کے عطا کردہ آداب کا بہت ہی خیال کرتے ہیں۔
دوسری جانب ہماری سیاسی قوتوں اور افراد کی بساط پر اکثر میرے مفادات کی شطرنج پر کسی اور کے اشارے پر چلے جاتے ہیں۔ ایک اہم ترین قوت وہ قوت ہے جو مذہب اور مذہبی سیاست کا نمائندہ کہلاتی ہے اور ان کا وزن بہت وزنی ہوتا ہے جب روایتی ترازو کے پلڑے میں بطور پاسنگ رکھی جاتی ہے۔ ورنہ وہ قوت اپنی بیداری کے احساس کی پہچان کروانے کیلئے کچھ مذہب بیزار رویے اختیار کرتی ہے اور اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دیتی ہے۔ اس رویے کا احساس مغربی قوتوں کو بخوبی ہے اور اس ادراک کے نتیجے میں وہ ان قوتوں سے براہ راست رابطہ بھی رکھتے ہیں۔حالات کے مذکورہ اختصار نامے میں آج کی تازہ ترین صورتحال ہے کہ ڈرون حملوں اور خودکش حملوں کو روکنے کیلئے ہمارے پاس راستے اور وقت اتنا کم ہے کہ ہم جلدی سے کسی فیصلے کی جانب بڑھتے ہوئے بہت ہی دقت محسوس کررہے ہیں اور ہماری دقت اس وقت اور بھی زیاد بڑھ جاتی ہے جب ہمارے نوعمر، ناتجربہ کار اور حالات کی سنگینی سے بے خبر اسمبلی دار سیاستدان نرم لہجوں اور باہوش رویوں سے ناآشنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اتفاق کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دیتے ۔
ہمارے وزیراعظم کے امریکی دورے پر جافکار اور انجانے اہل قلم نے اپنی بساط اور حسن نیت کے مطابق بہت تبصرے کئے ہیں، وہ متفقہ بھی ہیں اور مختلف بھی ہیں لیکن ایک تبصرہ متفقہ ہے کہ ہم اپنے گھر آ کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے اور جب بیرونی جابروں سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک ہاتھ مصافحے کیلئے بڑھاتے ہیں اور دوسرا ہاتھ کشکول پکڑے ان کی خدمت میں پھیلا دیتے ہیں۔
قار ئین کرام! ہماری اسمبلیوں اور ہماری ذاتی کاوشوں میں حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کیا کیا پروگرام ہیں۔ وہ روزانہ ٹی وی اور اخبارات میں قوم کے سامنے احوال و افکار آتے رہتے ہیں اور بے چارے عوام الناس جذبہ حب الوطنی سے کبھی سوچتے ہیں تو خوفزدہ ہو کر ہاتھ دعا کیلئے اٹھاتے ہیں تو معاً ان کے ہاتھ انکے بھوکے پیٹ پر آلگتے ہیں کہ دشمن نے ملک کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی اندرونی کارندوں کی معرفت بھوک بموں سے انکا جینا محال کردیا ہے۔ جبر و منافقت کے اس ظالمانہ ماحول میں فطرت کی ناراض قوتیں کسی اور فیصلے کی فرد لئے تابع حکم تیار کھڑی ہیں۔آج مجھے ایک درویش نے حال مستی کے عالم میں چند جملے کہے جو ہماری قومی بدحالی کے بارے میں تھے۔ اس درویش خدا مست کے الفاظ یہ ہیں:
’’قوم کے گلے میں قربانی کے جانور کی طرح رسی ڈال کر گھسیٹنے والے قوم کی قربانی کرکے خوش ہو رہے ہیں کہ انکے دنیاوی والیان نعمت ان کو اقتدار کے تخت پر براجمان رکھیں گے اور وہ والیان نعمت کی خوشنودی کے حصول میں اتنے مگن ہیں کہ وہ خود کو بھی بھول گئے اور خدا کو بھی بھول گئے لیکن فطرت کی تعزیر کے پابند تازیانے برسانے والا خفیہ خدائی ہاتھ تیزی سے انکی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ خدا کو تو اپنی مخلوق سے بہت محبت ہے۔ اور وہ ظالموں کو اچھا نہیں سمجھتا ہے اور ان پر لعنت بھیجتا ہے۔…ع
ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024