ایک اعصاب شکن معرکہ کے بعد بارک اوبامہ دوسری مدت کیلئے صدارتی انتخاب جینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حریف امیدوار مٹ رومنی پر ان کی برتری واضح تھی لیکن انتخابی مہم کے دوران تمام جائزوں سے یہی تاثر ملتا رہا کہ مقابلہ کانٹ دار ہو گا۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب کے بارے میں سروے اور جائزوں کو سائنسی حقائق کا درجہ حاصل ہے لیکن ان نتائج کے بعد قبل از انتخاب جائزوں کی صحت کے بارے میں بھی اب سوالات اٹھیں گے۔ امریکہ کے مشرقی ساحل پر سینڈی نام کے تباہ کن طوفان کی وجہ سے انتخاب کے التواءکا بھی خدشہ تھا ۔ امریکی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی طوفان کی وجہ سے وال سٹریٹ اور امریکی سٹاک ایکسچینج دو روز بند رہی ہو لیکن طوفان کی تباہ کاریوں کے باوجود صدارتی انتخاب کا شیڈول کے مطابق انعقاد کر یہ ثابت کر دیا گیا کہ نیت درست ہو تو کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وطن عزیز کی پوری تاریخ ان المیوں سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح حیلوں ،بہانوں سے سیاسی اور انتخابی عمل کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔
ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلیکن،پاکستان کیلئے دونوںبرابر ہیں۔روائتی تاثر تو یہی ہے کہ ری پبلیکن پاکستان دوست اور ڈیموکریٹ معاندانہ رویہ کے حامل ہیں لیکن عملاً صورتحال مختلف ہے۔ دونون پارٹیوں کے عرصہ اقتدار کے دوران پاکستان ہمیشہ آزمائش سے دوچار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاک امریکہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے لیکن کسی بھی دور میں امریکہ،پاکستان کا قابل اعتماد دوست نہیں رہا اور نہ ہی پاکستان کے عوام نے کبھی امریکہ کا اعتبار کیا ہے۔ اس بداعتمادی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔اس کے برعکس پاکستان کے عوام چین پر ہمیشہ بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکی شکوہ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو سب سے زیادہ مالی اور فوجی مدد فراہم کی ہے لیکن پاکستانی ہمیشہ چین سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
بارک اوبامہ کا دوبارہ انتخاب البتہ اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ2011 کے نشیب و فراز کے بعد رواں سال پاک امریکہ تعلقات میں بہتری پیدا ہونے کے آثار نمودار ہوئے۔ اوبامہ کو دوبارہ موقع ملنے کی وجہ سے بہتری کے اس عمل کا تسلسل قائم رہے گا۔ اس برس پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کی غیر اعلانیہ بحالی عمل میں آئی۔ڈی جی آئی ایس آئی نے امریکہ کا دورہ کیا۔اس کے بعد وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی واشنگٹن میں ہیلری کلنٹن سے دو طرفہ مذاکرات کئے۔البتہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا متوقع دورہ امریکہ ابھی تک نہیں ہو سکا تا ہم اس دوران وہ ماسکو سے ہو آئے ہیں جسے پاک روس تعلقات میں ایک تاریخی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
انتخاب سے پہلے کچھ حلقوں کی پیشگوئی تھی کہ اوبامہ ہی جیتیں گے کیونکہ ایک نسلی اقلیت سے تعلق اور مسلمان والد کے پس منظر کی وجہ سے وہ آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور اسی کمزوری کی وجہ سے امریکہ کی طاقتور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونہ بنے ہوئے ہیں۔ ایسا صدر اسٹیبلشمنٹ کیلئے موزوں ترین ہوتاہے۔ پہلے صدارتی انتخاب سے قبل اوبامہ نے مسلہ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں خاصے جوشیلے اور مثبت بیانات دئے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ان دونوں سلگتے ہوئے مسائل کا دوبارہ تذکرہ کرنے کی جرائت نہیں کی۔ یہی کہا جاتا ہے کہ امریکی جرنیلوں اور سی آئی نے انہیں خوب ڈرا کر رکھا۔اوبامہ کے برعکس مٹ رومنی ایک طاقتور شخصیت کے مالک ہیں۔ مضبوط مالی حثییت،سفید فام ہونا،ملک کے بڑے سیاسی خانوادے کا چشم و چراغ ہونا ان کی طاقت کا منمبع تھا۔ امریکی صدر کی حثییت سے وہ یقیناً اوبامہ کی بہ نسبت کہیں آزادی سے پالیسی اور فیصلہ سازی کرتے۔مٹ رومنی دلچست مذھبی پس منظر کے حامل ہیں۔ رومنی کا تعلق امریکی ریاست یوٹا سے ہے جہاں ایک نئے مسیحی چرچ”مارمن“ کی حکمرانی ہے۔ ریاست کی سیاست و معیشت پر مارمن قابض ہیں۔ چرچ کے کم و بیش سب ہی ارکان انتہائی امیر ہیں۔لاس ویگاس کے مشہور عالم جوئے خانہ ان ہی کی ملکیت ہیں۔ مٹ رومنی بھی اس چرچ کے اعلیٰ عہدیدار رہے ہیں۔ مارمن چرچ،دیگر مسیحی چرچوں کے برعکس تعدد ازدواج کی اجازت دیا ہے اور مارمن ارکان نے بیک وقت کئی شادیاں کی ہوتی ہیں لیکن رومنی نے بہرحال ایک ہی شادی کی۔مٹ رومنی کے مضبوط مسیحی پس منظر پر امریکی یا عالمی میڈیا نے کبھی روشنی نہیں ڈالی لیکن اسلامی دنیا میں دینی پس منظر کی حال سیاسی شخصیات ہمیشہ مغربی میڈیا کی تنقید،شبہات اور اعتراضات کا نشانہ بنتے ہیں۔اوبامہ کا دوبارہ انتخاب پاکستان کیلئے یوں بھی اہم ہے کہ میں امریکہ،افغانستان سے فوجی انخلاءشروع کر دے گا۔پاکستان کا مطالبہ کے کہ فوجی انخلاءسے قبل افغانستان میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد بندوبست کر کے جائے تاکہ وہاں دوبارہ بدامنی اور خونریزی کا کھیل نہ کھلا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38