اتوار، 6 شوال 1443ھ‘ 8 مئی 2022ء

شہباز گل کے ایکسیڈنٹ اور بعد کی ویڈیوز پر دلچسپ تبصرہ
ابھی لوگ پنجاب اسمبلی میں ہنگامی آرائی کے بعد پرویز الہی کی سپر پرفارمنس نہیں بھولے تھے جس میں انہوں نے اپنے پر حملہ‘ بازو توڑنے گردن مروڑنے‘ سانسیں اتھل پتھل ہونے کی ایسی شاندار اور جاندار پرفارمنس دی کہ یار لوگ واقعی پریشان ہوگئے کہ اس عمر میں ان کے ساتھ ایسا سلوک غلط ہے مگر جس طرح انہوں نے ٹوٹا ہاتھ زور زور سے ہلاایا اور کئی لوگوں سے ملایا۔ گردن گھما گھما کی باتیں کیں اس سے لوگوں کو پتہ چلاکہ یہ ٹوپی ڈرامہ ہے۔ مگر ان کی پرفارمنس پر سب عش عش کر اٹھے۔ اب شہباز گل کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے۔ وہ ویسے بھی ہر وقت میڈیا میں رہنے کے شوقین ہیں۔ انہیں تو بہانہ مل گیا۔ رونمائی کا۔ حادثہ میں ان کی گاڑی الٹی لوگوں نے انہیں گاڑی سے نکالا اس وقت تک وہ صحیح سلامت تھے۔ کھڑے ہو کر حیرت سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ویڈیوز میں ہاتھ اور پاؤں سلامت تھے مگر اگلے روز جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو حیرت انگیز طور پر لاٹھی ٹیک کر چل رہے تھے۔گردن پرکالر چڑھا ہوا تھا۔ بازو بیگ میں لٹکا ہوا تھا۔ وہ تو ایک ٹوٹا ہوا کھلونا لگ رہے تھے۔ جسے شرارتی بچے توڑ مروڑ کر پھینک گئے ہوں۔ انہوں نے بھی پرویز الٰہی کی طرح اپنے پر قاتلانہ حملے کی دہائی دیتے ہوئے سات نام تجویزکئے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شہباز گل بازی لے گئے اور پرویز الٰہی کو کاٹ گئے ہیں جو ہنگامہ کے روز ہی زخمی نظر آ رہے تھے۔ شہباز گل تو حادثے کے اگلے روز زخمی حالت میں ملے۔ اب سوشل میڈیا پر جو طوفان برپا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں صحافتی آداب اجازت نہیں دیتے۔ مگر ایسا کچھ کرتے ہوئے ہمارے سیاستدان کیوں شرمندہ نہیں ہوتے۔
٭٭٭……٭٭٭
گڑھی شاہو میں ہلڑ بازی اور ون ویلنگ سے روکنے پر منچلوں کا وارڈن پر تشدد
صرف یہی نہیں کہ ان کم بختوں نے ٹریفک وارڈن کو مار مار کر ادھ موا کر دیا اور اس بے چارے کی موٹر سائیکل بھی لے کر بھاگ گئے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے۔ یہ ون ویلر اور بازاروں میں ہلڑ مچا کر خواتین اور فیملیز کو ہراساں کرنے والے یہ لوفر اتنے نڈر کیسے ہوگئے کیا انہیں قانون کا سزا کا بھی خوف نہیں رہا۔ انتظامیہ کی یہ لاپرواہی ہے یا سفارشی عناصر کا زور اور دباؤ کہ پولیس بھی ان بدتمیزی کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے لاہور میں اگر 100 یا 50 ون ویلر یا ہلڑ بازی کرنے والے آوارہ لڑکے پولیس پکڑ بھی لیتی ہے تو یہ کوئی کمال نہیں۔ ان کے علاوہ جو آزاد پھر رہے ہیں ان کو بھی قابو کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر جو خواتین اور فیلمیز کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کے خلاف تو ہراسگی کے نئے قوانین کے تحت مقدمات درج ہوں گے تو باقی کو سبق ملے گا۔ کسی بھی خاتون یا فیملی کو تنگ کرنا بھی ہراسگی میں آتا ہے۔ انہی آوارہ لوفروں کی وجہ سے خواتین اب بھی بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے بس میں سفر کرتے ہوئے خوفزدہ رہتی ہیں۔ اب انتظامیہ اور پولیس مل کر ایسے لڑکوں کے خلاف ایکشن لے جن کی فہرست موجود ہے کہ یہ سب آوارہ ون ویلر ہیں۔ اس کے ساتھ ٹریفک وارڈن پر حملہ کرنے اور لڑنے والوں کو بھی قابو کیا جائے ورنہ قانون کی دھاک یو نہی ڈھاک کے تین پات بن کر طاقتوروں کے ہاتھوں پٹیتی رہے گی۔
٭٭٭……٭٭٭
عید کے بعد سیاسی گہماگہمی میں اضافہ جلسوں کی بہار آ گئی
اگر یہ صرف سیاسی میدان تک ہی رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔ یہ سیاسی آگ گلی محلوں اور گھروں تک آ گئی ہے۔ بدزبانی‘ بدکلامی‘ یہ تہذیبی‘ کا جو نیا عنصر نئے پاکستان کی بدولت ہماری سیاسی زندگیوں میں داخل ہوا ہے۔ اب اس کا اظہار گھروں میں بھی ہونے لگا ہے۔ تہذیب شرافت اور تحمل کا جوہر جو پہلے اعلیٰ سیاست کی پہچان ہوتا تھا۔ اب دور کسی تھڑے کے نیچے بسنے والی بدرو میں بہہ چکا ہے۔ سیاست اور سیاسی آگہی جمہوری معاشرے کی پہچان ہے۔ مگر ہم نے اس کا الٹ مطلب لیا ہے۔ گزشتہ روز ہی دیکھ لیں جلسوں میں جس طرح ایک دوسرے کو للکارا گیا۔ الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ گری زبان اور بگڑے لہجے میں مخاطب کیا گیا۔ اس کو سن کر تو پرانے وضعدار اور بھلے مانس سیاسی کارکنوں نے بھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ یہ انداز تکلم معاشرے کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا۔ انارکی پہلے ہی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ سیاسی انارکی کے ساتھ اگر معاشی انارکی بھی مل گئی تو پھر ہمارے ہاں بھی سری لنکا اور افغانستان جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ خدانخواستہ کیا ہم بحیثیت ایٹمی طاقت اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اس بات پر تمام سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہیے ورنہ کوئی اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہی دخل در معقولات کر سکتا ہے۔ جس کے بعد سیاسی بازار میں جو مندا ہوگا۔ اس کی ذمہ داری یہ سب سیاسی بازیگر ایک دوسرے پر ڈالتے پھریں گے۔
٭٭٭……٭٭٭
کرونا سے ہلاکتیں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ غیر مستند ہے: وزارت صحت
خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ سب جانتے ہیں کہ کن کی رپورٹ غلط ہے اور کس کی وضاحت درست ہے۔ کرونا کے دوران دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے کروڑوں کرونا سے متاثر ہوئے۔ کروڑوں صحت یاب ہوئے۔ اب عالمی ادارہ صحت نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں ان ممالک کا تذکرہ ہے جہاں کی حکومتوں نے کرونا سے مرنے والوں کی اصل تعداد چھپائی اور کم ظاہر کی ہے۔ ان میں بھارت دوسرے نمبر پر ہے جہاں حکومت نے سرکاری اعداد وشمار میں 5 لاکھ افراد کے ہلاکت کی تصدیق کی ہے مگر عالمی ادارہ صحت کے مطابق وہاں مرنے والوں کی تعداد 47 لاکھ ہے۔ جو بھارت نے چھپائی یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جہاں سرکاری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی جو تعداد بتائی ہے۔ عالمی رپورٹ میں مرنے والے 8 گنا زیادہ ہیں۔ یوں ہمارے ہاں بھی مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اب پاکستانی ادارہ صحت کے مطابق یہ اعداد شمار تعجب خیز ہیں کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا کوئی ثبوت نہیں کیونکہ ہمارے مسلم معاشرے میں مرنے والوں کی تدفین ہوتی ہے۔ جبکہ کرونا سے مرنے والوں کی علیحدہ قبرستانوں میں تدفین کی گئی جن کا ریکارڈ موجود ہے۔ اب یہ بحث اپنی جگہ مگر جس طرح چین میں ایک بار پھر کرونا تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔ اس پر ہمیں سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکاری اور عالمی ادارہ صحت بحث کرتے رہیں اور کرونا کی نئی لہر ہمارے دروازے یہ دستک دیتی نظر آئے۔ سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں آئندہ کے لئے سخت حفاظتی اقدامات کرنے اور علاج کیلئے ویکسین کا سٹاک تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔