حکومتی گورننس مضبوط ہو تو کسی مافیا کو پَر مارنے کی جرأت نہیں ہو سکتی
وزیراعظم کا مافیاز کے مضبوط اور نظام انصاف کے کمزور ہونے کا شکوہ اور اصل حقائق
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جس نے پورے سسٹم کو گھیر لیا ہے‘ تیس سال حکومت کرنیوالے حساب دینے کو تیار نہیں‘ ہمارا نظام انصاف کمزور ہوگیا ہے جو طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا۔ گزشتہ روز لاہور میں پنجاب پیری اربن ہائوسنگ منصوبے کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عدالتوں میں پچاس پچاس سال مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ کمزور کو اوپر اٹھانے کی ذمہ دار ریاست ہے‘ پولیس اور قبضہ گروپ مل گئے چنانچہ نجی اور سرکاری زمین پر قبضہ کیا جارہا تھا۔ انکے بقول یہ قبضہ گروپ اس لئے بنے کہ زمینوں کے مقدمات کا تصفیہ نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں سالہا سال مقدمات لٹکتے رہے تو قبضہ گروپ آیا اور اسکے ساتھ ایک ٹرائیکا بن گیا۔ جج اور پولیس ساتھ مل گئی اس طرح قبضہ گروپ حکومت اور کمزور لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک چھوٹی سی ایلیٹ کلاس نے اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔ ملک میں انصاف کا نظام طاقتور ڈاکوئوں کو نہیں پکڑ سکتا جس کے باعث محلات میں رہنے والے امیر ترین لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ انکے بقول جس معاشرے میں امیر کم ہونے کے باوجود طاقتور اور غریب زیادہ ہوں اور کمزور ہوں‘ وہ معاشرہ کبھی اوپر نہیں اٹھ سکتا۔ یہاں ایک نظام بن گیا ہے جس میں عام آدمی کیلئے کوئی نہیں سوچتا کہ وہ کیسے زندگی گزارے گا۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو ساہوکار اور انگریز کے مسلط کردہ استحصالی نظام سے نجات دلانے کیلئے ہی ایک الگ خطۂ ارضی کا تصور پیش کرکے اس کیلئے جدوجہد کی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا تاہم قائداعظم کے انتقال کے بعد اقتدار پرستوں نے اپنے مفادات کے تابع بانیانِ پاکستان کے الگ مملکت کے حصول سے متعلق تمام مقاصد گہنا دیئے اور ملک اور اسکے عوام پھر لوٹ کھسوٹ والے استحصالی نظام کی زد میں آگئے جس میں حکمران اشرافیہ طبقات کے وارے نیارے ہوئے اور اقتصادی مسائل میں گھرا عام آدمی عملاً راندۂ درگاہ ہوگیا۔ اس استحصالی نظام کو اپنے اپنے اقتدار کی باریاں لگانے والے مفاد پرست سیاست دانوں نے زیادہ تقویت پہنچائی جو طالع آزمائوں کو بھی اپنے کندھے فراہم کرکے جمہوریت کا سفرکھوٹا کرتے رہے اور قومی دولت وسائل کی لوٹ مار میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عمران خان ملک اور عوام کو اسی استحصالی نظام کے شکنجے سے نجات دلانے اور سٹیٹس کو والی موروثی سیاست کا راستہ بند کرنے کے جذبے کے تحت تین دہائیاں قبل سیاست میں آئے تھے جنہوں نے کرپشن فری سوسائٹی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور وطن عزیز کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم باندھا تو عوام انہیں مسیحا کے روپ میں دیکھنے لگے جو فی الواقع ریاست مدینہ جیسی مملکت کے خواب دیکھ رہے تھے۔
پاکستان کا قیام تو ایک جدید اسلامی‘ فلاحی جمہوری مملکت کے طور پر عمل میں آیا تھا جس کی بنیاد قائد و اقبال کی امنگوں اور آدرشوں پر استوار کی جاتی تو یہاں نہ صرف اسلام کے زریں اصولوں کی پاسداری و عملداری ہوتی بلکہ ہمارا تشخص دنیا میں مستحکم معیشت والے ملک کی حیثیت سے اجاگر ہو چکا ہوتا جس میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری ہوتی مگر بدقسمتی سے مفاد پرست حکمران طبقات نے اسلامی‘ جمہوری فلاحی مملکت کے تصورات کبھی عملی قالب میں ڈھلنے ہی نہ دیئے۔ عمران خان کو عوام میں اسی لئے پذیرائی حاصل ہوئی کہ انکے منشور اور ایجنڈے میں اسلامی‘ جمہوری فلاحی مملکت کی ہی جھلک نظر آتی تھی۔ اس منشور کی بنیاد پر ہی وہ 2013ء کے انتخابات میں وفاق میں بڑی اپوزیشن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور خیبر پی کے میں انہیں حکومت تشکیل دینے کا موقع مل گیا۔ بطور اپوزیشن لیڈر وہ سیاسی اور عدالتی نظام کی اصلاح اور تبدیلی کے نعرے لگاتے رہے جنہوں نے اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی سخت مزاحمت کی اور اپنی دھرنا سیاست کے بعد انہوں نے پانامہ لیکس کے منظرعام پر آنے کے بعد حکمران طبقات کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انکی اس تحریک کے نتیجہ میں ہی اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اپنے خاندان سمیت قانونی اور عدالتی گرفت میں آئے اور نہ صرف وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہو کر تاحیات نااہل قرار پائے بلکہ منی لانڈرنگ کے ریفرنسز میں سزا یافتہ بھی ہوئے۔ اسی طرح سابقہ حکمران پیپلزپارٹی کے قائدین کو بھی نیب کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جو ابھی تک یہ مقدمات بھگت رہے ہیں۔
کرپشن فری سوسائٹی کیلئے عمران خان کی کاوشوں کے باعث ہی عوام نے 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاق اور صوبوں کے اقتدار کا مینڈیٹ دے دیا چنانچہ اپنے گوناں گوں مسائل میں گھرے عوام کی انکے ساتھ بے پناہ توقعات وابستہ ہو گئیں۔ بدقسمتی سے وہ اب تک عوام کی ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور پی ٹی آئی حکومت کی سخت گیر مالی اور اقتصادی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد کرنے کے باعث عوام کو آئے روز مہنگائی کے نئے عفریتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ناجائز منافع خوروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور قبضہ گروپوں کی شکل میں عوام کا استحصال کرنیوالے مافیا کارٹیل مزید مضبوط اور بے خوب ہوئے ہیں جن کیلئے قانون کی عملداری کا تصور ہی بے معنی ہوچکا ہے۔ اسی صورتحال میں پی ٹی آئی کے اقتدار کا اڑھائی سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اگلے دو سال بعد اسے نئے مینڈیٹ کیلئے دوبارہ عوام کے پاس جانا ہے مگر اپنے اقتدار کے تین سال میں عوام کیلئے کچھ نہ کر پانے کی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت سے اقتدار کے باقیماندہ دو سالوں میں عوام کا مقدر سنوارنے کے اقدامات اٹھانے کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی بنیاد پر حکومت کو عوامی دبائو کا سامنا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان خود ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور عوام کی فلاح کیلئے کچھ نہ کر پانے کا اعتراف کرکے حکومتی گورننس کی کمزوری کا عندیہ دے رہے ہیں جس کیلئے وہ استحصالی اشرافیہ طبقات کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ عوام نے تو انہیں مینڈیٹ ہی اس استحصالی طبقہ سے خلاصی دلانے کیلئے دیا تھا۔
اس صورتحال میں سب سے پہلے انہیں اپنی حکومت کی گورننس مضبوط بنانے اور کمزور طبقات کو قانون کا تحفظ دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے مختلف مافیاز کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ اس کیلئے یقیناً نظام عدل کو حکومتی گورننس کا معاون بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ مقصد تبھی پورا ہوگا جب نظام عدل کو اسکے تمام لوازمات اور وسائل سے مزین کیا جائیگا۔ اگر ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد ہی پوری نہیں ہوگی اور دوسرا متعلقہ سٹاف ہی دستیاب نہیں ہوگا تو اس سے فوری انصاف کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ عدلیہ کو مطلوبہ سہولتیں اور وسائل مہیا کرنا بہرصورت حکومت کی ہی ذمہ داری ہے جس کے بعد انصاف دوست معاشرہ قائم نہ ہو تو عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کا اس حوالے سے یہ استدلال بادی النظر میں بے معنی نظر آتا ہے کہ ہمارا نظام انصاف کمزور ہوگیا ہے جو طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا جبکہ اسی نظام انصاف میں دو وزرائے اعظم انصاف کی عملداری کے شکنجے میں آکر نااہل اور سزایافتہ ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بے شک ذاتی طور پر سسٹم کی اصلاح کیلئے کاوشیں بھی بروئے کار لاتے ہیں تاہم حکومتی گورننس کی کمزوری انکے بھی آڑے آجاتی ہے اس لئے اس وقت بنیادی ضرورت حکومتی گورننس مضبوط بنانے کی ہے تاکہ کسی بھی مافیا کو من مانیاں کرنے اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی جرأت نہ ہو۔ اس کیلئے حکومت کو عملیت پسندی سے کام لینا ہوگا جس کا حکومتی صفوں میں آج فقدان نظر آتا ہے۔