ہفتہ ‘ 25؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 8؍مئی 2021ء
پولٹری سیکٹر کو مافیا کہنے پر مرغی 10 روپے کلو مہنگی
یہ لفظ ’’مافیا‘‘ ہی کی تاثیر ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکنے والی مرغیاں بھی شیر ہوگئی ہیں جو پولٹری سیکٹر کی جانب سے کئے گئے اپنے گوشت کے نرخوں میں اضافہ پر اترا رہی ہوں گی۔اس سے ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی مزاج کا اندازہ بخوبی لگا لینا چاہیے کہ ہم ’’مافیا‘‘ ہیں لیکن کہلانا پسند نہیں کرتے ، کوئی آئینہ دکھا دے تو برا مان جاتے ہیں۔ برائلر مرغیوں میں آج کل ’’کلغی‘‘ والے مرغ مرغیاں بہت کم ہی دیکھے جاتے ہیں تاہم کئی ’’برائلرز‘‘ ایسے ہوتے ہیں جن پر چھوٹی موٹی ’’کلغی‘‘ ہوتی ہے جبکہ برائلرز کی اکثریت ’’کھو دی‘‘ یعنی کلغیوں کے بغیر ہی ہوتی ہے ’’مافیا‘‘ کہنے پر یہ شدید ردعمل ’’کلغی‘‘ نہ رکھنے والی اس برائلر مرغی کا ہے جو اگلے لمحے ہی ’’شہ رگ‘‘ پر چھری چلنے کے بعد ’’ڈرمی‘‘ میں پھڑ پھڑا رہی ہوتی ہے تو جس معاشرے میں سارا ’’مافیا‘‘ ہی ’’کلغیوں‘‘ والا ہو وہاں اس کی ناراضی کی صورت میں مہنگائی کی حالت کیا ہو گی۔ اس کا اندازہ ہر پاکستانی کر ہی رہا ہے۔ اس لیے ہر کسی کو مافیا کہنے سے گریز ہی کیا جائے ورنہ آٹا مافیا ، چینی مافیا ، پٹرول مافیا اور نہ جانے کون کون سا مافیا ہے اس لیے خاموشی ہی بہتر ہے کیونکہ ’’مافیا‘ کہنے کے بعد پھر حکومت سے ’’مافیا‘‘ سنبھالا نہیں جاتا لہٰذا برائلر مرغیوں سے بھی ’’مافیا‘‘‘ کہنے کی معذرت کر لینی چاہیے۔ یہ ’’مافیا‘‘ کو ’’مافیا‘‘ اور ’’برے‘‘ کو ’’برا‘‘ کہنے کا وقت نہیں کیونکہ …؎
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ ،کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو، خاموش رہو ،ہاں اے لوگو، خاموش رہو
آنکھیں موند کنارے بیٹھو ،من کے رکھو بند کواڑ
انشا جی لو دھاگا لو، اور لب سی لو ، خاموش رہو
٭٭٭٭٭
صرف 2 نہیں ، اگلے 15 سال کا سوچ رہا ہوں: شوکت ترین
ہمارے ملکی ، سیاسی اور حکومتی معاملات منیر نیازی کے بقول کچھ ایسے ہی ہیں کہ …؎
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
یہ صرف شوکت ترین کا وژن ہی نہیں بلکہ موجودہ دور حکومت میں ان کے جتنے بھی پیش رو گزرے ہیں سب اسی طرح کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں ، سوچا سب نے اگلے 20 ، 30 سال کا ہی ہے لیکن جب رخصت ہوئے اور نئے ’’منصب دار‘‘ آ گئے تو پتہ چلا کہ ملکی معیشت کو ’’ریورس گیئر‘‘ لگا ہوا تھا اور وہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو دوڑتی رہی اور یوں 20,15 سال کی مسافت ’’ریورس گیئر‘‘ میں ہی طے کر گئی۔ خیر…! شوکت ترین کا معاملہ ان کے ’’پیش رو‘‘ جیسا نہیں ۔ کیونکہ جس طرح وہ آئی ایم ایف کو پاکستانی عوام کی مشکلات اور قومی معیشت کے مسائل سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر وہ اپنے مشن اور مقصد میں کامیاب ہو گئے تو واقعی ان کی بات سچ ہو گی کہ ’’صرف 2 نہیں ، اگلے 15 سال کا سوچ رہا ہوں۔‘‘
70 سال سے آسوں ، امیدوں پر لگی قوم تو یہی سمجھتی ہے کہ …؎
بدلے گا ہی دور فلک ، مایوس یہ ناحق ہم تم ہیں
گلزار میں ہے پھولوں کی دمک ،افلاک پہ تاباں انجم ہیں
٭٭٭٭٭
پی پی 84 میں اپنے امیدوار کو (ن) لیگ کے حق میں دستبردار ہونے کا کہہ دیا تھا: کائرہ
پیپلز پارٹی کا یہی ’’سیانا پن‘‘ ہے اور ایسے نازک موقع پر اسی کا اظہار ضروری ہے کہ ’’پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق اپنے امیدوار کو (ن) لیگ کے حق میں دستبردار ہونے کا کہہ دیا تھا ، ڈسکہ اور وزیر آباد میں کاغذات نامزدگی بروقت واپس لے لیے تھے لیکن یہاں ایسانہ ہو سکا۔‘‘ قمر زمان کائرہ کی ’’سیاسی منطق‘‘ سے یقیناً جیالے مطمئن ہو گئے ہونگے ورنہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کا 230 ووٹ لینا ایسے ہی ہے جیسے کسی کونسلر کے امیدوار کے بکس سے صرف تین ووٹ نکلے تو اس نے ’’فی البدیہہ‘‘ کہا کہ ’’ایک ووٹ میرا ، دوسرا میری بیوی کا اور تیسرا پتہ نہیں کون…‘‘ یہ تو بھلا ہو ، کائرہ صاحب کا کہ جنہوں نے حکمت اور دانشمندی سے پارٹی کا بھرم رکھ لیا ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت کا بھی شکریہ کہ اس نے کائرہ کے ’’بیان‘‘ پر اپنا ردّعمل ظاہر نہیں کیا ورنہ اس کے جواب میں پی ڈی ایم کے سربراہ کا ’’73ء کے آئین کے تناظر‘‘ میں ردّعمل آ گیا تو پیپلز پارٹی کے لیے پی ڈی ایم میں بیٹھنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ ویسے پیپلز پارٹی نے ’’پی ڈی ایم‘‘ کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے اور کراچی میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے امیدوار جس طرح دست و گریباں ہیں اور جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی کا خوشاب میں اپنے امیدوار کو دست برداری کے لیے کہہ دینا بڑے ظرف کی بات ہے۔ بہرحال حقیقت کیا ہے یہ تو وہ امیدوار ہی جانتا ہے جس نے 230 ووٹ لیے۔
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات میں
٭٭٭٭٭
بھارتی پولیس نے دولہا دلہن کی گاڑی کے ٹائروں سے ہوا نکال دی
پولیس کسی دیس کی بھی ہو ، اپنی رٹ نافذ کرانا جانتی ہے ، دنیا بھر کی پولیس کا مزاج انیس ، بیس کے فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے ، ہم پاکستانی پولیس کو کوستے رہتے ہیں کہ اس کو یہاں عوام کی کسی غمی خوشی کا خیال نہیں رہتا ، بس اس نے ہر لمحہ ’’رنگ میں بھنگ ڈالنے‘‘ کی ہی ٹھان رکھی ہوتی ہے ، شادی والا گھر ہو یا خدانخواستہ کہیں غمی کی صورت ہو ، پولیس اپنا کام کر کے رہتی ہے ، ہمسایہ ملک بھارت کی پولیس بھی ایسا ہی مزاج رکھتی ہے۔ قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے وہ کچھ کر گزرتی ہے جس کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ بالخصوص خوشی کے موقع پر تو ایسی حرکتیں کر کے بد دعائیں لینا پولیس سروس کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس نے کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے پر دولہا دلہن کی گاڑی کے ٹائروں سے ہوا نکال دی۔ ایس او پیز کے ان ’’ماہرین‘‘ سے کوئی پوچھے کہ ٹائروں سے ہوا نکالنے کے بعد تو دولہا دلہن کے گاڑی کے گرد لوگوں کا ہجوم ہو گیا ہو گا ، پھر جب تک متبادل گاڑی منگوا کر ان کو رخصت نہ کیا گیا ہو گا‘ لوگ دولہا دلہن کی گاڑی کے گرد جمع ہی رہے ہونگے تو ایسے ماحول میں کرونا پھیلنے کے خدشے سے زیادہ خاموشی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر دلہن کے پیا گھر سدھار جانے میں ہی عافیت ہے۔ بھارتی پولیس نے تو پھر بھی رعایت برتی ، ہماری پنجاب پولیس ہوتی تو دولہا سیدھا حوالات جاتا۔