اصلاحات‘ شفاف انتخابات‘ باکردار نمائندے
دائرے کا بے سود اور بے نتیجہ سفر جاری ہے-ہر انتخاب کے بعد ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگاتی ہیں- یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی جماعت تحریک انصاف نے آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے نئے عام انتخابات کا فیصلہ کرلیا ہے-تحریک انصاف کے لیڈر نے انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے-مسلم لیگ نون کے لیڈر نے نہ صرف اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ عام انتخابات آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد اپنے وقت پر کرائے جائیں تاکہ تحریک انصاف کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ مل سکے-مسلم لیگ نون کے لیڈر کا یہ خیال ہے کہ دو سال کے بعد مسلم لیگ نون کے مقبولیت کے گراف میں مزید اضافہ ہوجائے گا جب کہ تحریک انصاف معاشی مسائل کی وجہ سے عوام میں اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی-انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں پی پی پی کا رویہ مسلم لیگ نون سے بہتر ہے اور بلاول بھٹو نے انتخابی اصلاحات کی ضرورت کے پیش نظر حکومتی جماعت سے پارلیمان کی سطح پر تعاون کا اظہار کیا ہے-مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے تجویز پیش کی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں تجاویز الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے پیش کی جائیں اور یہ آئینی ادارہ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے اور اس طرح انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا مکمل کیا جائے-افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک جانب پاکستان کے سیاستدان پارلیمنٹ کی بالادستی کے بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں جبکہ کہ وہ سیاسی اور آئینی مسائل پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے سے اکثر اوقات قاصر رہتے ہیں اور اپنے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ ریاست کے دوسرے غیر سیاسی اداروں کی جانب دیکھتے رہتے ہیں-پاکستان کے عوام کی یہ خواہش ہے کہ انتخاب کے سارے عمل کو شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے تاکہ عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے مطابق حکومتیں تشکیل پاسکیں اور عوام کے اعتماد کے ساتھ ملک اور قوم کے مسائل حل کئے جاسکیں-عوام کی یہ خواہش بھی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایسے نمائندے پارلیمنٹ میں آئیںجو بے لوث باکردار اور عوام دوست ہوں-انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ کم و بیش 200 خاندان بار بار منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جن پر کرپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں اور وہ سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں-ایک تحقیق کے مطابق 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے 140 اراکین وفاداریاں تبدیل کرکے مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے- 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے 89 ارکان پی پی پی میں شامل ہو گئے-2013 کے انتخابات میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی مسلم لیگ نون میں شامل ہوگئے- 2018 کے انتخابات میں انہی اراکین کی اکثریت تحریک انصاف میں شامل ہوگئی-حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سیاسی تماشے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بارے میں کسی سطح پر بھی کوئی بات ہی نہیں ہو رہی اور نہ ہی کوئی تجویز سامنے آ رہی ہے - سارا زور انتخابی عمل کو شفاف بنانے پر ہے- پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ انتخابی نظام میں پڑھے لکھے اہل نیک نیت محب وطن اور بے لوث افراد انتخابات میں حصہ لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیونکہ انتخابی کھیل بہت مہنگا بنا دیا گیا ہے-تبدیلی اور نیا پاکستان کا دعوی کرنے والی سیاسی جماعت بھی اس اہم ترین مسئلے پر خاموش نظر آتی ہے-
حکومتی جماعت نے اصلاحات کا جو پیکج دیا ہے اس کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 اور آئین میں 49 ترامیم کرنی پڑیں گی جس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی- توقع کی جا رہی ہے کہ پی پی پی انتخابی اصلاحات پر رضامند ہو جائے گی اور اس کے اشتراک اور تعاون سے آئین اور قوانین میں ترمیم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا-پاکستان کے بیدار باشعور پاکستان اور عوام دوست حلقوں کا فرض ہے کہ وہ اس موقع پر توانا آواز بلند کریں اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ڈالیں- امیدواروں کی اہلیت مقرر کی جائے اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ جو پارلیمنٹ وجود میں آئے اس میں تمام شعبوں اور طبقوں کی نمائندگی موجود ہو - متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کے ذریعے ہی دو سو خاندانوں کی بالادستی کو ختم کیا جا سکتا ہے- پارلیمنٹ کے دروازے پاکستان کے با کردار بے لوث اور عوام دوست افراد کے لیے کھولے جا سکتے ہیں-ایسی انتخابی اصلاحات کا پاکستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جن کے بعد کرپٹ روایتی سیاسی امیدوار جن کو انتخابی گھوڑے بھی کہا جاتا ہے دوبارہ منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے اندر پہنچ جائیں-انتخابی عمل سے سرمائے کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے تمام انتخابی جلسوں پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے پارٹیوں کے لیڈر الیکٹرونک میڈیا پر اپنی جماعت کا منشور پیش کریں جس کی روشنی میں رائے دہندگان اپنی پسند کے امیدوار اور جماعت کو ووٹ دے سکیں گے- انتخابات کو سستا اور آسان بنایا جانا چاہیے تاکہ ایک عام آدمی پڑھا لکھا بے لوث باکردار اور اہل شخص بھی انتخابی عمل میں حصہ لے سکے- ان سیاسی جماعتوں کو جو رجسٹرڈ ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہیں ان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی جماعتوں کے اندر یونین کونسل سے مرکزی سطح تک پارٹی عہدیداروں کا انتخاب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں کرائیں تاکہ سیاسی جمہوری فریب کو ختم کرکے حقیقی معنوں میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق سیاسی ادارے تشکیل دیئے جا سکیں- خاندانی و شخصی سیاست کو ختم کرکے سماجی سیاست اور جمہوریت کو قائم کیا جا سکتا ہے-بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور مقامی حکومتوں کے سیاسی انتظامی مالی اختیارات کو مکمل آئینی تحفظ دیا جائے جس طرح صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تحفظ دیا گیا ہے-ریاست کا چیف ایگزیکٹو ‘ وہ صدر ہو یا وزیر اعظم اس کو پاکستان کے عوام براہ راست منتخب کریں تاکہ وہ پارلیمنٹ کی بجائے عوام کو جواب دہ ہو بیس پچیس افراد کی کابینہ بنا کر ملک کا نظم و نسق چلائے اور پارلیمنٹ کے اراکین اس کو بلیک میل نہ کر سکیں-امیدوار صرف اس انتخابی حلقے میں انتخاب لڑ سکے جس میں اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہو-جن افراد کے خلاف نیب میں کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اور جن کے خلاف عدالتوں میں فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں ان کو انتخاب لڑنے کی اس وقت تک اجازت نہ دی جائے جب تک وہ عدالتوں سے بری نہ ہو جائیں-