جدہ کی ڈائری
امیر محمد خان
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوںکی
میرا قلم تو عدالت ہے میرے ضمیر کی
دنیا بھر میں صحافی تنظیموں اور صحافیوں نے یوم آزادی صحافت منایا ، اس موقع پر پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے میڈیا سے اپنی سچی اور جھوٹی محبت کے بیانات جاری کئے ۔ چونکہ جب سیاسی جماعت کے ارشادات انکی مرضی کےمطابق ہوتے ہیں تو انہیں میڈیا آزاد نظر آتا ہے اور جب انہیں موقع ملتا ہوے وہ پوری قوت کے ساتھ میڈیا کو گلہ گھنونٹ کر اسے ملیا میٹ کرنے کے درپے ہوتے ہیں پاکستان میں گزشتہ ستر سالوںسے یہ ہی ہورہا ہے، پاکستان میڈیا اسوقت نہائت کسمپرسی کے حالت میٰں ہے ۔ میڈیا کارکنان بشمول صحافی بے روزگار ہیں یا جو روزگار پر ہیں انہیں تنخواہیں مہینوں بعد ملتی ہیں۔صحافی یو ٹیوب چینلز کھول کر اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں ۔ عالمی اداروں میں 150 ممالک میں پاکستان میں آزادی اظہار کا نمبر افسوسناک طور پر نہائت آخری سیڑھی پر ہے ۔ پاکستان میں صحافیوں نے آزادی صحافت کے سلسلے میں ہر دور میں جدوجہد کی ہے ، جیل، بھوک ہڑتالیں ، کوڑے ساری صوبتیںبرداشت کی ہیں مگر مسئلہ یہ ہی رہا ہے کہ ہر ارباب اختیار نے میڈٰیا کو اپنے گھر کی جاگیر تصور کیا اور صرف سب اچھا سننے کی ریت پڑ گئی ۔سعودی عرب میں بھی نہائت مستنعد صحافیوں کی سوشل تنظیمیں ہیں جن میں پاک میڈیا فورم اور پاکستان جنرنلسٹ فورم اپنے اپنے میڈیا گروپوںکے ذریعے دہری ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں نمبر ایک دیار غیر میں رہتے ہوئے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستی کے رشتوںکومظبوط کرنے کی کوششیں کرنا اور دوم پاکستانی کمیونٹی کو صحیح خبروں سے باخبر رکھنا ، گزشتہ دنوں یوم آزادی صحافت پر ریاض میں پاک میڈیا فورم کے چئیرمین الیاس رحیم اور سئنئر نائب صدر ریاض کمیونٹی کی سرگرم شخصیت وشاعر وقار نسیم وامق نے بزم بزرگان ریاض کی ایک محفل میں آزادی صحافت کے موضوع پر اظہار خیال کیا ۔ ادھر جدہ میں بھی پاکستانی صحافیوں کی سوشل تنظیم پاکستان جر نلسٹس فورم نے بھی آن لائین یہ دن منایا ، جس میں شاہد نعیم، جمیل راٹھور، خالد چیمہ ، محمد عدیل، امانت اللہ ، جاوید راہو، عامل عثمانی، خالد خورشید ، شہزاد خان ، معروف حسین ، مصطفے خان ، اور مسرت خلیل نے شرکت کی ، دونوں اجلاسوں میں صحافیوں کا کہنا تھا کہ صحافت مقدس پیشہ ہے اور اسکے ذریعے برائیوں کی نشاندہی کرکے اچھائیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے جبکہ اچھی اور مثبت صحافت کے ذریعے جہاں مسائل کو حل کروانے میں مدد کی جاسکتی ہے وہیں متوسط اور غریب طبقے کی رہنمائی اور ان کو حقوق دلانے میں بھی اہم فریضہ سرانجام دیا جاسکتا ہے. انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ملک میں صحافت چوتھا ستون کے طور پر جانا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں صحافت بدنام ہو کر رہ گئی ہے اور بےشمار الزامات کی زد میں ہے مگر جہاں دیگر اداروں کی بدحالی ہوچکی ہے وہیں پر صحافت جیسا چوتھا ستون بھی ایسی ہی کسی بدحالی کا شکار ہے اسکی بڑی وجہ ایسے افراد کا اس میں گھس جانا ہے جو صحافت کو شیلٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ صحافت سے منسلک افراد خود احتسابی کے عمل سے گزر کر آگے بڑھیں. پاک میڈیا فورم اور پاکستان جنرنلسٹس فورم نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ صحافی برادری کے تحفظ اور انکے حقوق دیکر تبدیلی کے نعرے کو تقویت بخشے اور جمہوری اقدار کی طرح صحافت کو جکڑنے اور قابو میں رکھنے کی بجائے اسے مکمل آزادی دے تاکہ جمہوری اقدار کے ساتھ صحافتی اقدار بھی مناسب انداز کے ساتھ آگے بڑھ سکیں اور پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کو بھی چاہئیے کہ وہ صحافت کے اصل معیار کو بام عروج تک پہنچائیں.
بزم بزرگان ریاض صحافیوں کے ہمراہ
بزمِ بزرگانِ ریاض کے بانی ڈاکٹر سعید احمد وینس، چیئرمین قاضی اسحاق میمن، جنرل، سنئیر نائب صدر ڈاکٹر ریاض چوہدری، ڈاکٹر طارق عزیز، سیٹھ عابد، عقیل قریشی، اسلم عاشق، آر جے فواد، سید بابر علی اور دیگر نے کہا کہ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں صحافت میں جدت آئی ہے اور خبروں کا نا رکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے، دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے تک خبر چند لمحات میں پہنچ جاتی ہے اس لئے ایسے میں خبروں کی سچائی اور ان کے معیار میں کمی بیشی ہوتی ہے جس کو دور کرنا بہت ضروری ہے. بزمِ بزرگانِ ریاض کے ذمہ داران نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں جہاں صحافیوں کو نامساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اور کئی بار اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا یے اسکی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حکومت کی جانب سے میڈیا کے خلاف مہم چلانے اور اسے یرغمال بنانا بھی کسی صورت درست عمل نہیں ہے اسلئے ضروری ہے کہ ملک میں حکومت اور میڈیا کے لوگ آپس میں بیٹھ کر ایسا فارمولا طے کریں جس سے صحافت کسی جکڑ بندی میں نظر نا آئے. بزمِ بزرگانِ ریاض کی جانب سے پاک میڈیا فورم اور پاکستان جرنلسٹس فورم کی صحافتی سرگرمیوں کو سراہا گیا اور کہا کہ پاک میڈیا فورم نے ثابت کیا ہے کہ اسکا ہر ایک صحافی ایماندار اور اپنی ذمہ داریوںسے آگاہ ہے اور اپنے کام کو بھرپور اچھے انداز کے ساتھ سرانجام دیتا ہے، پاک میڈیا فورم اور پی جے ایف کیمونٹی تقریبات کی کوریج کرکے ان کو پوری دنیا میں نشر کرکے جو مثبت چہرہ دیکھا رہا ہے اس پر پوری کیمونٹی ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے.
سابق سفیر سعودی عرب منظور الحق کاکروناءوائرس کے حوالے سے آن لائن خطاب
گزشتہ ڈائری میں بھی میں نے تحریر کیا تھا کہ ہمار ے سفارت کاروں میں پر مغز اور تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیںجو اپنی زندگی سرکار کی چاپلوسی پر ہی نہیںبلکہ علم کے مطالعے پر بھی گزارتے ہیں ،سعود ی عرب میںپاکستان کے سابقہ سفیر منظور الحق نہ صرف سفارت کار بلکہ علامہ اقبال کی شاعری ، اپنی شاعری ، اور معلومات مقالات کے حوالے سے بھی اپنی مثبت شناخت کے حامل ہیں ، ریاض کی سرگرم تنظیم بز م ریاض انہیں کے دور میں ظہور پذیر ہوئی تھی ۔سعودی عرب میں بزمِ ریاض کی جانب سے کورونا وائرس اور دنیا پر اس کے اثرات کے عنوان سے بزم کیفے آن لائن سیشن منعقد ہوا جس کے مقررِ خاص اور مہمانِ خصوصی سابق سفیرِ پاکستان برائے سعودی عرب منظور الحق تھے. سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والے آن لائن سیشن میں بزمِ ریاض کے ارکان کے علاوہ پاکستانی کمیونٹی کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں، علاوہ ازیں دنیا کے مختلف ممالک سے بھی بزم کے ارکان اور کئی افراد آن لائن بزم کیفے میں شریک تھے.
اس موقع پر سابق سفیرِ پاکستان منظور الحق نے کورونا وائرس کے دنیا پر اثرات کے حوالے سے مفصل گفتگو کی، منظور الحق کا کہنا تھا کہ کورونا نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور کورونا کے بعد کا دور ایک انقلاب ثابت ہوگا، تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں جب کبھی کوئی بڑی مصیبت آئی تو اس کے نتیجے میں انسان بہتر حکمتِ عملی سے زندگی میں آگے کی طرف بڑھا اور آگے کی طرف بڑھنے کے عمل میں انسان نے نئے علوم سیکھے، نت نئی ایجادات کیں، رہن سہن کے نئے طریقے اپنائے اور اس دوران بہترین ادب تخلیق کیا گویا کہ انسان نے اپنے اوپر آنیوالی مصیبت اور پریشانی کے دور میں تجربے اور سیکھنے کے کامیاب عمل سے گزر کر دنیا کو پہلے سے بہتر بنایا. منظور الحق کا مزید کہنا تھا کہ کورونا کے اس دور میں ہمیں احتیاطی تدابیر کو اپنائے رکھنا ہے اور صحت کے رہنما اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہے، اپنے رہن سہن کے طریقوں کو بہتر بنانا ہے، اس دور میں تعلیم اور تربیت کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، ہمیں نئے علوم سیکھنے ہیں، تحقیق اور جستجو کا عمل جاری رکھنا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان می?ں آگے بڑھنا ہے، اس مرض کا علاج تلاش کرنا اور ویکسین بنانی ہے، اس موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے اسباب سے متعلق تمام مفروضوں کا جواب آنیوالا وقت خود دے گا. اس موقع پر منظور الحق نے 1922ءکی وباءکے دوران علامہ اقبال کے لکھے ہوئے دو خطوط کا ذکر کرتے ہوئے ان کا اقتباس پیش کیا اور کورونا کے حوالے سے پشتو زبان میں لکھی ہوئی اپنی نظم اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کی جسے ناظرین نے بے حد سراہا، جدہ سے آن لائن سیشن میں شریک سعودی میڈیا پرسن اور شاعرہ سمیرہ عزیز اور ریاض سے وقار نسیم وامق نے بھی کورونا سے متعلق اشعار پیش کئے. آن لائن سیشن سے تصدق گیلانی، ریاض راٹھور، تنویر میاں نے بھی خطاب کیا جبکہ سوال و جواب کے سیشن میں عبدالر¶ف مغل، احسن عباسی، طلحہ ظہیر، چوہدری مبین، عبدالقیوم خان، قاضی اسحاق میمن، رابعہ قاسم، کامران گیلانی، ریحان اکرم، ڈاکٹر ریاض چوہدری، شکیل کیانی، شبریز اختر اور دیگر شامل تھے، بزم کی جانب سے ارشد شیخ، حسن مہدی، زاہد سندھو، ڈاکٹر طارق عزیز، ڈاکٹر سعید وینس، آر جے فواد، عادل محمود اور دیگر احباب بھی تقریب میں شامل تھے.