کورونا وائرس کی عالمی وباء کیا پھیلی پوری دنیا کو قید کر دیا۔ شاید یہ اُن بے بس، لاچار، مظلوم و محکوم کشمیریوں کی بددعا ہے جنہیں کئی ماہ سے اپنے گھروں پر بند کر دیا گیا ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو بھی روزانہ ایک دو گھنٹے چہل قدمی کروائی جاتی ہے۔ لیکن ظالم ہندو کی متعصب سوچ نے مسلمانوں کا حقہ پانی ہی بند نہیں کیا بلکہ اُنہیں زندہ درگور کرکے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے جو بچ جاتے ہیں وہ یا تو گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں یا پھر تہاڑ جیل میں انتظامیہ کے روزانہ کی بنیاد پر ظلم و زیادتی اور تشدد کا شکار کئے جاتے ہیں۔ہاں تو ہم بات کر رہے تھے، گھروں میں بند رہنے کی تاکہ اس وباء جو کہ حقیقتاً چھوت چھات کی بیماری ہے کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ لیکن ہمارے ملک کے باسی جو کسی قانون، قاعدے، حکومتی اعلانات، اپیلوں، درخواستوں اور انتباء کو کسی خاطرمیںنہیں لاتے___ اُن کا کیا علاج ہے۔ لیکن ہمارا آج کا موضوع سخن وہ شہری ہیں جو قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ حکومتی اور طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔اس تمہیدکا مقصد آپ کی توجہ اور عمل کو دعوت دینا ہے کہ آئیے حکومتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں، مارکیٹوں، گلی محلوں میں اربوں کی تعداد میں چوہے ہیں ان کو تلف کریں۔ آوارہ کتوں کو ختم کریں۔ مچھر اور مکھیاں ماریں۔ پھیلی ہوئی گندگی کو منظم طریقے سے صاف کریں۔ ٹوٹے گٹروں اور کچی نالیوں کو خود مرمت کریں۔ تاکہ آئندہ آنے والی کسی اور وباء سے تحفظ کیا جا سکے۔ذمہ داریوں سے پہلوتہی اور احساسِ کمی کا پتہ اُس وقت چلا جب مجھے ایک واقف کے ذریعے لاہور کے ایک بڑے نامی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر جانے کا موقع ملا۔ جہاں جانے کے لئے منہ ہاتھ دھونا، گلوز اور جوتے بدلنے انتہائی ضروری ہیں۔ وہاں میں نے بلی کے بلونگڑے جتنے بڑے بڑے چوہے آزادانہ گھومتے دیکھے۔ جن کا کوئی سدِباب یا علاج نہیں کیا گیا۔ بھئی کسی کو کیا پڑی اِن گندے کاموں میں پڑنے کی۔روس کے آمر اسٹالن کی سالگرہ آئی تو چمچے کڑچھے، اعلیٰ و ادنیٰ افسران اور پارٹی کے کارکن حاضر ہوئے کہ جناب اجازت دیں تو آپ کی سالگرہ آپ کے شایان شان منائی جائے۔ یہ سن کر جوزف اسٹالن طیش میں آگئے اور انتہائی ترش لہجے میں حکم دیا کہ میری سالگرہ کو اُس کی اصل روح کے مطابق منانے اور مجھے خوش کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے اندر کی صفائی کرو۔ پھر اپنے گھر، دفاتر، گلی کوچوں اور ہسپتالوں کی صفائی کرو۔ وہ دن اور آج کا دن نظام بدلنے کے باوجود ہر سہ ماہی کو ہر شہر کے ہر ادارے اور گھروں میں صفائی کا دن منایا جاتا ہے اور صفائی کی جاتی ہے۔صفائی کا آغاز کرتے ہوئے سب سے بڑا جھاڑو اور جھاڑن سب سے بڑے افسر کے ہاتھ میں ہوتاہے جو سب کو لیڈ کرتا ہے۔ روسی زبان میں اسے ’’گینرل ابورکا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قومیں صفائی کو شعار اور اس کام کو کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔بے کار مباش کی اصطلاح کو سامنے رکھ کر ہم آپ کو مشورہ دیں گے جو شریف لوگ ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی ہدایات پر گھروں میں بند ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں صفائی اور دیگر امور پر توجہ دیں تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔کراچی گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کراچی میٹروپولیٹن کہتی ہے کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور صوبائی حکومت اس کو میٹروپولیٹن کی ذمہ داری بتاتے ہیں۔ دونوں مل کر مرکز کے خلاف ذمہ داریوں سے پہلوتہی کے الزامات لگاتے ہیں۔ بڑا آسان نسخہ ہے کراچی کو صاف کرنے کا۔ کراچی میں واقع تمام بنکوں، انشورنس کمپنیوں، سرکاری اداروں، صنعت کاروں کو حکم دیں کہ وہ بڑے ٹرک کرائے پر لے کر مزدوروں کا بندوبست کرکے دو دو سو ٹرک اپنے خرچے پر کچرے کے اُٹھوائیں۔ علاوہ ازیں تین تین کلومیٹر نالوں کی صفائی کی ذمہ داری اُن کی لگائیں۔ اُن کو مالی طور پر کوئی نقصان نہیں ہو گا اور کراچی صاف ہو جائے گا۔ہانگ کانگ میں جگہ کی کمی ہے۔ اسی لئے وہ دنیا کا مہنگا ترین شہر ہے۔ وہاں جب گورے کی حکومت تھی تو وہاں ایک پنسلولا ہوٹل کھولنے کے لئے سرمایہ داروں نے حکومت کی اجازت چاہی۔ یاد رہے کہ ہانگ کانگ میں چونکہ جگہ کی کمی ہے۔ حکومت نے پوچھا کہ آپ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیاکر سکتے ہو۔ باہمی افہام و تفہیم اور اتفاق سے یہ طے پایا کہ ہوٹل انتظامیہ سمندر میں ایک کلومیٹر لمبا پل تعمیر کرے گی جس پر عوام سیر وتفریح کرسکیں گے۔
آج یہ پل ’’لورز برج‘‘ (Lovers Bridge) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں سرِشام نوجوان جمع ہو جاتے ہیں اور زندگی کے مزے لیتے ہیں۔
وے بُلھیا اسیں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
ہم کتنی تن آسان اور عملی سوچ سے عاری قوم ہیں کہ دیوار میں کیل گاڑنے کے لئے بھی باہر سے مشیر بلاتے ہیں۔باعثِ افسوس ہے کہ کوڑا اُٹھانے کا ٹھیکہ بھی باہر کے ملکوں کے پاس ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024