دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی دلجمعی سے عبادت کیلئے پروگرام ترتیب دیتے ہیں ۔ اور مساجد ، بازاروں کی رونقیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان کے مسلمان رمضان المبارک کی خوشیوںکے ساتھ اپنے رزق کیلئے پریشیان ہوجاتے ہیں ، ہمارے تاجر ، دوکاندار دل بھر کر منافع خوری کرتے ہیں جنہیں پوچھنے والا نہ پہلے کوئی تھا نہ اب کوئی ہے ۔حکمران چاہے سابقہ ہوں یا حالیہ وہ عوام کی پریشانیوں پر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہی یہ کہتے ہوئے کہ ’’مہنگائی کا اثر عوام پر نہیں پڑے گا ــ‘‘ شائد یہ لوگ عوام اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور پریشان حال عوام تو انہیں صرف انتخابات کے وقت نظر آتے ہیں ۔ ہر آنے والی حکومت خزانہ خالی ہونے کا راگ الاپتی ہے ، حکومت میں آنے سے قبل وہ جو بھی حکومت وقت ہو اسکی خامیوںکی نشاندہی کرتی ہے ۔ اور یہ کہتی ہے کہ اگر ہم حکومت میں آگئے تو دودھ کی نہریںبہا دینگے، کوئی بھوکا نہیں سوئیگا ، روزگار کی فراوانی ہوگی ،ملک پر عائد قرضہ جن سے قرضہ لیا ہے انکے منہ پر دے مارینگے، وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور حکومت میں آنے کے بعد سب کچھ اسی ٹریک پر چل نکلتا ہے جس پر پہلے چل رہا تھا ۔ موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ دعوے آسمانوں کے کئے ،( کسی نے خوب کہا کہ موت کے بعد آسمان پر جانے کا ہمارا ایمان ہے تو ٹھیک تو کہا تھا ) بد قسمتی سے مسائل تھے ، یہ بھی مان لیا کہ گزشتہ حکومتیںسب کچھ ہڑپ کرگئیں ،اس ہڑپ شدہ دولت کو عوام پر خرچ کرنے کیلئے اور مزید ہڑپ ہونے سے بچانے کیلئے ایک تجربہ کار ٹیم تو موجود ہونا چاہئے تھی بد قسمتی سے وہ بھی نہ تھی ۔یہ بھی کہا گیا کہ دوست ممالک نے IMF جانے سے بچا لیا ، غیر تجربہ کار لوگ اگر تجربہ کریں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ، وہ ہی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوا ، اورہورہا ہے ۔ آسمان سے ستارے توڑ کر لانے والے وزیر خزانہ کی کارکردگی ہمارے معاشی کفیل IMF کو پسند نہ آئی انکی آخری ملاقات پر انکا وزارت سے دیس نکالا بالکل اسی انداز میں ہوا جسطرح سابقہ وزیر اعظم مرحوم جونیجو جو بہ حیثیت وزیر اعظم غیرملکی دورے پر مگر جب وہ پاکستان پہنچے تو ہوائی اڈنے پر انکے لئے پرٹوکول نہ تھا انکی وزارت اعظمی ختم ہوچکی تھی۔ اسد عمر کے ساتھ ایسا نہ ہوا مگر قریبی لوگو ں کے علم میں تھا معاملات طے ہوچکے ہیں۔ اور ملک کی معیشت کو چلانے کیلئے ہمارا معاشی کفیل IMF ٹیم خود دیگا ، اور دے دیا ۔ بقول وزیر اعظم جس آصف علی ذرداری اور اسکے وزیر خزانہ نے لوٹ مار کی، آصف علی ذرداری کا وزیر خزانہ نا اہل تھا اور مجبوری کا نام شکریہ کہتے ہوئے اسی وزیر خزانہ کو اپنا مشیر خزانہ بنالیا ۔ وزارت خزانہ میں دیگر تبدیلیاں معاشی کفیل IMF کی ہدائت پر ہورہی ہیں۔عوام پہلے ہی بقول حکومت سکون سے ہیں اب مزید آنیوالے بجٹ میں مزید سکون مل جائیگا ۔ تحریک انصاف ابھی بھی کنٹینر والے وعدے کررہی ہے ، فیصل واڈوا کہتے ہیں چند ہفتے میںنوکریوں کی بارش ہوگی ۔ وہ یہ بات ڈھٹائی کے ساتھ بار بار کہتے ہیں۔مسئلہ یہ کہ عوام کی چیخیںنکل چکی ہیں ، اسوقت ہوشمندی کی ضرورت ہے مگر مسئلہ یہ ہے یہ ہوشمندی بازار میںنہیں ملتی ، ملک چلانے والوںکو یہ احساس کرنا پڑے گا ، بے روزگاری ہوتی ہے ، مہنگائی ہوتی ہے تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ، کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو علیحدگی کی بات ہوتی ہے جیسے ایک مرتبہ پھر الطاف حسین کی پاکستان میں موجود باقیات کہہ رہی ہے کہ ’’جب پاکستان تقسیم ہوسکتا ہے تو سندھ کیوں نہیں ؟ ‘‘ مگر چونکہ انکا اتحاد حکومت کے ساتھ ہے ان سے اس بکواس اور شر پسندانہ بیان کے متعلق کوئی کچھ نہیں پوچھ رہا ۔ یہ ہے ہمارا المیہ اسی طرح مجیب الرحمان جنم لیتے ہیں اور پھر ہم افواج پاکستان کو کہتے ہیں کہ مقابلہ کرو ۔ یہ مسئلہ موجودہ حزب اختلاف کے اپنے کارناموں کی وجہ سے ہے حزب اختلاف کا وہ بیانیہ جس میں کسی ’’خلائی مخلوق ‘‘کا ذکر ہوتا تھا ، آج تک ٹاک شوز میں اس بیانیہ کا ذکر ہوتا ہے مگر نہ ہی اینکر ، نہ ہی سیاست دان چاہے وہ مسلم لیگ ن کا ہی کیوںنہ ہوا اس بیانیہ کی تشریح نہیںکرتا ، مسلم لیگ ن پہلے قصور وار کسی ’’خلائی مخلوق ‘‘کو کہتی تھی بعد میں یہ بیانیہ تبدیل ہوکر تمام نزلہ احتسابی اداروںپر ڈال دیا۔ مگر معاف کرنیوالوں نے معافی نہ دی، مگر لگتا ہے معافی دی ہے، حکومت کہتی ہے ڈیل نہیں ہوگی ، ڈھیل نہیں ہوگی، دوسری جانب احتسابی عمل میں دھنسی پی پی پی ، حزب اختلاف کہتی ہے ڈیل یا ڈھیل کس نے مانگی ہے ، مگریہ بیانئے صرف مجھے اور آپ کو عوام کو سنانے کیلئے ہیں حقیقت میں ڈیل بھی ہے اور ڈھیل بھی ، عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ نہ سمجھ سکیں اکائونٹ کمیٹی کی سربراہی پر جھگڑے فساد ہوئے وہ یکانک چھوڑنے کی باتیں کیوں ہورہی ہیں؟ مسلم لیگ ن میں عہدیداریاں کیوں تقسیم ہوگئیں ؟ میاں نواز شریف کو اللہ صحت دے انکی لند ن جانے کی خواہش ؟؟ عدالت سے منظور نہ ہونا ، جب معاملات ہوتے ہیں تو پرویز مشرف بھی عدالت جاتے جاتے راستے سے ہی ہسپتال چلے جاتے ہیں اور پھر دوبئی ، تو یہ سب کچھ ایک دن میاں نوا ز شریف کے ساتھ بھی ہوگا ، اور اس پر بھی یو ٹرن لے لیا جائیگا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل پر توجہ کب دی جائیگی۔چونکہ ا ن معاملات سے عوام پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر مہنگائی سے براہ راست اثر پڑتا ہے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024