لبنان کے الیکشن میں سعدحریری کی پارٹی کو شکست، حزب اللہ اور اتحادی کامیاب
بیروت (اے ایف پی+ نوائے وقت رپورٹ) لبنان میں 9 برس بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں نے واضح کامیابی حاصل کرلی جبکہ مغرب کے حمایت یافتہ وزیر اعظم سعد حریری کی پارٹی فیوچر موومنٹ کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ سعد نے شکست تسلیم کر لی۔ لبنان کے پارلیمانی انتخابات میں سعدالحریری کی جماعت کو شکست ہو گئی۔ سعودی اخبار کے مطابق اپوزیشن جماعت حزب اللہ نے 50 فیصد نشستیں جیت لیں۔ لبنانی آئین کے تحت حکومت سعدالحریری کی جماعت ہی بنائے گی عددی اکثریت کے باعث حزب اللہ کوئی بھی قانون ویٹو کرنے کی پوزیشن میں آ گئی۔ لبنان کو مغربی اور سعودی امداد بند ہو سکتی ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق غیر سرکاری نتائج کے مطابق سعد حریری، جن کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں، نے بیروت میں 5 نشستیں کھو دیں جسے ان کی جماعت کا مضبوط ترین حلقہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ لبنان کے پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کی معیشت کے استحکام سے متعلق عوام کی پریشانی بڑھ گئی ہے اور ریاست کے سنی ووٹرز اب سعد حریری کی جماعت پر بھروسہ نہیں کر رہے۔تاہم سعد حریری کے پاس نقصانات کے باوجود پارلیمنٹ کا بڑا حصہ موجود ہے جو ان کے دوبارہ وزیر اعظم بننے اور حکومت بنانے میں مدد کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ سرکاری نتائج کا اعلان وزیر داخلہ نوہاد مچنوک کی جانب سے کیا جانا باقی ہے۔ لبنان کی آئندہ حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح ایک اتحادی حکومت قائم کرے گی جس میں سعد حریری کے لیے حزب اللہ سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔ حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں کو 128 نشستوں کی پارلیمنٹ میں 47 نشستیں ملیں جس کے ذریعے وہ کسی بھی قانون مخالفت کیلئے ویٹو کا حق استعمال کرسکتے ہیں۔ 9 سال کے بعد ہونے والے انتخابات میں ٹرن ا?ؤٹ بھی پچھلے انتخابات سے کم رہا جو ووٹرز میں موجود غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ نوہاد مچنوک کے مطابق قومی سطح پر ٹرن ا?ؤٹ 49 فیصد رہا جو 2009 میں ہونے والے انتخابات میں 54 فیصد تھا جبکہ صرف بیروت میں ٹرن ا?وٹ 32 فیصد تھا جو پچھلے الیکشن میں 42 فیصد تھا۔ سول سوسائٹی کے دو امیدواروں نے بھی پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں۔ یہ دونوں خواتین امیدوار صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں جو لبنان کی سیاست کے لیے انتہائی اہم پیش رفت ہے کیوں کہ دونوں کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا مذہبی رہنما سے نہیں۔