چیلنج کرتا ہوں 40 سال میں کے پی کے میں وہ کچھ نہیں ہوا جو پی ٹی آئی نے کیا : عمران
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فراہمی صحت کا نظام بدلنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں کا نوٹس لیا ہے، ہم چیف جسٹس کو خوش آمدید کرتے ہیں، چیف جسٹس وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت کو کرنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کروں گا کہ اس سلسلے میں غیر جانبدار ماہرین کی کمیٹی بنائیں، چاہتا ہوں کہ پتہ چلے کے پی حکومت نے عوام کیلئے کام کیا ہے۔عمران خان نے کہا کہ 40 سال میں کسی نے کے پی کے میں ہسپتالوں میں اصلاحات نہیں کیں، لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا کیا۔عمران خان نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں 40 سال میں کے پی میں وہ کام نہیں ہوا جو پی ٹی آئی نے کیا۔انہوں نے کہا کہ کے پی میں ہسپتالوں کی بہتری کیلئے پی ٹی آئی نے پانچ سال سخت محنت کی، سب سے پہلے ہیلتھ ریفارمز ایکٹ لے کر آئے، ساتھ ہی ڈاکٹرز برادری کو بھی منانا پڑا، انہیں سمجھایا کہ سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ہیلتھ ریفارمز ضروری ہیں۔چیئرمین پی ٹی ا?ئی نے مزید بتایا کہ جب ہم نے صحت اصلاحات کو نافذ کرنا شروع کیا تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا،چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ انہوں نے کے پی کے میں سرکاری اسپتالوں کا معیار بہتر بنانے اور نظام تبدیل کرنے کے لیے ان قابل ڈاکٹرز کو مختلف ہسپتالوں کے بورڈ میں شامل کیا تاکہ وہ ان اسپتالوں کو اوپر لاسکیں، یہ ڈاکٹرز کوئی پیسے نہیں لیتے، اپنے خرچے پر آتے جاتے ہیں، پورے پاکستان کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، ایسے کنسلٹنٹس کیلئے حکومت کو کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کیوں سرکاری اسپتال شوکت خانم اسپتال یا کسی اور پرائیوٹ اسپتال کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس راہ میں بہت سے مسائل ہیں، میں وہ مسائل چیف جسٹس کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔عمران خان نے بتایا کہ شوکت خاتم اس لیے عالمی معیار کا اسپتال ہے کیوں کہ وہاں سزا و جزا کا نظام ہے، میرٹ ہے، وہ کسی کو جان پہچان کی بنیاد پر فائدہ نہیں پہنچایا جاتا، کوئی سیاسی جماعت سفارش نہیں کرواسکتی اور سب سے اہم بات یہ کہ شوکت خانم میں اگر کوئی ڈاکٹر کام نہیں کرتا تو اسے باہر نکال دیتے ہیں جبکہ اچھے ڈاکٹرز کو بونسز ملتے ہیں، یہ کامیاب ماڈل ہے۔انہوں نے کہا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پر آجائیں، وہاں ایک ڈاکٹر ہیں ریاض انور، وہ دل کی سرجری کے ڈپارٹمنٹ کو ہیڈ کررہے تھے انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو وہ ہائی کورٹ میں چلے گئے اور گزشتہ چھ ماہ سے حکم امتناع پر ہیں۔عمران خان نے بتایا کہ جب ہم نے اعداد و شمار نکالیں تو معلوم ہوا کہ اسپتال میں دل کے مریضوں کی شرح اموات 23 فیصد ہے جبکہ دنیا میں اگر کہیں ایک فیصد ہو تو بھی تحقیقات شروع ہوجاتی ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ایک اور ڈاکٹر جن کا نام موسیٰ کلیم ہے اور وہ چیف آف پیڈیاٹرکس ہیں، انہیں اسپتال انتظامیہ نے نااہلیت پر نکالا لیکن وہ بھی چھ مہینے سے سٹے آرڈر لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف جب تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ایمرجنسی روم میں 60 بچے تھے اور وہاں صرف دو ٹرینی ڈاکٹرز موجود تھے جبکہ ایک بچہ مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔ جب ہیڈ آف پیڈیاٹرکس سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔عمران خان نے کہا کہ اب مجھے کوئی بتائے کہ ایک ادارہ ایسے کیسے چل سکتا ہے کہ ایک شخص کو کوئی ڈسپلن میں ہی نہ لاسکے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ایسے اور کئی واقعات ہیں جن میں غفلت برتنے پر ڈاکٹرز کو برطرف کیا گیا لیکن وہ عدالت سے حکم امتناع لے آئے۔ عمران خان نے کہا کہ ذرا تصور کریں کہ ایک ہسپتال جہاں بہت سے مریض زیر علاج ہیں، انتظامیہ چاہ رہی ہے کہ غریب مریضوں کو معیاری علاج فراہم کیا جائے لیکن وہاں غفلت برتنے والے ڈاکٹرز اسٹے آرڈر لے کر بیٹھ جارہے ہیں۔ میں چیف جسٹس صاحب سے کہوں گا کہ شکر ہے آپ نے دلچسپی لی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے میں اصلاحات کی کوششوں کو چیلنج کرنے والا شخص ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا ہیڈ ہے اور اس کے خلاف ایک پوری فائل تیار ہے، اس نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا، جس ڈپارٹمنٹ میں وہ کام کررہا ہے اس کے ہیڈ سے کہا ہے کہ اسے باہر نکالیں۔عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب یہ بھی دیکھیں کہ ہماری حکومت میں صوبے کا ہیلتھ بجٹ 30 ارب روپے سے 80 ارب روپے پر گیا ہے، پہلے 3 ہزار ڈاکٹرز سے آج 8 ہزار ڈاکٹرز کام کررہے ہیں۔
عمران