ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی!
شیکسپیئر نے کہا تھا HUBRIS IS MORTAL'S CHIEFEST ENEMY حد سے بڑھتی ہوئی خود اعتمادی آدمی کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ عمران خان بھی اس کا شکار ہونے والا ہے۔ خان صاحب نے جب عملی سیاست کا آغاز کیا تو اُن کی سادگی اور نا تجربہ کاری سمجھ میں آتی تھی۔ ایک سیدھا سادا کرکٹر ورلڈ کپ جیت کر قوم کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ شوکت خانم ہسپتال کی تکمیل اور نمل یونیورسٹی کے قیام نے اُس کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے‘ اپنی ان کامیابیوں کے زعم میں جب وہ کوچہ سیاست میں وارد ہوا تو اسے احساس ہوا کہ (it is a different ball game) مشہور کہاوت ہے۔ جو شخص اپنا شجرہ نسب معلوم کرنا چاہے وہ سیاست میں آجائے۔ نہایت قلیل عرصہ میں نہ صرف اسے اپنے آبا و اجداد کا پتہ چل جائے گا بلکہ آنے والی نسل کی ہلکی سی اک تصویر بھی دکھائی دینے لگے گی۔ شریف برادران نے کیلے فورنیا کو اُس کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا۔ رنگوں کا عجب امتزاج WHITE اور BLACK گڈ مڈ ہونے لگے۔ خان کے جتنے حقیقی اور مفروضہ معاشقے تھے‘ طشت ازبام کر ڈالے۔ باایں ہمہ خان کی مقبولیت کم نہ ہو سکی کھلاڑیوں اور فلمی ستاروں کے سکینڈلز پر لوگ لعن طعن نہیں کرتے‘ حظ اٹھاتے ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد خان نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ ناکامیوں کی ایک بھی داستان۔ ہزار راہِ مغیلاں تھے کارواں کے لئے۔ اس کی پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہا گیا اس کی سادگی کا مذاق اُڑایا گیا۔ جولاہے کے بیٹے سے تشبیہ دی گئی جس کو ماں نے کہا تھا۔ تم پنڈ کے نمبر دار کبھی بھی نہ بن پاو¿ گے۔ اس کے باوجود خان نے ہمت نہ ہاری‘ ناکامیوں کو راستے کی دیوار نہ سمجھا بلکہ سیڑھی گردانا! بالآخر اس کی محنت رنگ لائی سابقہ الیکشن میں تحریک ایک بڑی طاقت بن کر اُبھری۔ اگر خان عین وقت پر سیڑھی سے نہ گرتا (یا نہ گرایا جاتا) تو نتیجہ اس سے بھی بہتر نکلتا۔ زرداری نے اُن انتخابات کو ROS کا الیکشن کہا ہے۔ خان نے بھی 35 پنکچروں کا الزام لگایا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے‘ انہونی صرف یہ ہوئی کہ اس کے معمار فریب وعدہ فردا کا شکار ہو گئے۔ شریفوں نے یہ فن سیکھ لیا ہے کہ ”محسنوں“ کو کیسے Lock, stock and barrel رخصت کرنا ہے۔
عمران کا دھرنا بوجوہ، کامیاب نہ ہو سکا ایک تو ایمپائر کی ہدایات پر پوری طرح عمل نہ کیا۔ دوسرا مولانا قادری پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر لیا۔ قوم کو آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ مولانا چاہتے کیا ہیں؟ آندھی کی طرح آتے ہیں اور بگولے کی طرح رخصت ہو جاتے ہیں۔ محمود غزنوی تو کچھ نہ کچھ لیکر ٹلتا تھا‘ یہ نذرانہ دیکر لوٹتے ہیں۔ ماڈل ٹاو¿ن کا المیہ ابھی کل کی ہی تو بات ہے۔ ایمپائر کی اُنگلی بڑی مشہور ہوئی جو کسی طور اُٹھ نہ سکی۔ ایمپائر کے کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے جو سادہ لوح خان کو نہیں آتا۔ اس سلسلے میں اُس کو میاں نوازشریف کی شاگردی کرنی چاہئے۔ میاں صاحب نے ہر میچ ایمپائر کی مدد سے جیتا ہے....دھرنا خان صاحب کی بے وقت شادی پر منتج ہوا۔ اگر آرمی پبلک سکول کا افسوسناک واقعہ نہ ہوتا تب بھی اس کے تاروپود بکھر چکے تھے۔
حالات نے ایک مرتبہ پھر خان کو صفِ اول میں لا کھڑا کیا ہے۔ کسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میاں صاحب پر اس قسم کا دور ابتلا آئے گا۔ اقتدار کا نغمہ شادی‘ نوحہ غم میں تبدیل ہو جائے گا۔ گو منیر نیازی کا وہ شعر ”کُج مینوں مرن دا شوق وی سی“ خاصا گھس پٹ گیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف نے ہر مرتبہ ”آبیل مجھے مار“ کا ورد کیا ہے۔ غلام اسحٰق خان، فاروق لغاری‘ جنرل آصف نواز، جنرل کاکڑ، پرویر مشرف ہر دفعہ کسی نہ کسی سے سینگ پھنسا بیٹھتے ہیں۔ اس مرتبہ صورتحال یکسر مختلف ہے جسے مرزا غالب کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ”تم سے بیجا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ.... اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا۔“ پانامہ جیسے ہنگامے اس ملک میں روز ہوتے ہیں۔ کیا ضرورت تھی بچوں کو بُلا کر انٹرویو کرانے کی پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کی! قوم سے بے وقت اور بلا ضرورت‘ خطاب کرنے کی‘ خورشید شاہ صاحب کی نصیحت پر عمل کرتے تو واقعہ پارلیمنٹ میں ان کی پارٹی کی اکثریت کے نیچے کب کا دب چکا ہوتا۔ خیر یہ بحث کہ یوں نہ ہوتا تو یوں ہوتا اب بیکار ہے۔ معاملات عدالت میں ہیں۔ دیکھیں گنبد نیلو فری سے اُچھلتا ہے کیا!
فیصلے سے قبل ہی بوری سے دانے کِرنے لگے ہیں۔ سیاسی پرندوں نے اُڑان بھرنی شروع کر دی ہے۔ انہیں سمت اور ٹھکانے کا بخوبی علم ہے۔ سب سے گھنا اور محفوظ شجر سایہ دار تحریک انصاف کا ہے۔ صرف دیکھنا یہ ہے کہ خان اس نعمت غیر مترقبہ اور ”عطیہ خداوندی“ کو کس مہارت اور چابک دستی سے استعمال کرتا ہے۔ اپنے افلاطونی خیالات کا اسیر ہوتا ہے یا معروضی حقیقتوں کا معترف! اصول پرستی، راست روی، مسلک کا احترام، دیانت اور امانت ایسی خوبیاں ہیں جو ہر مسلمان اور سیاستدان میں ہونی چاہئیں۔ ایک بگڑئے ہوئے معاشرے میں یہ اچھائیاں بتدریج لائی جا سکتی ہیں۔ کسی الہ دین کے چراغ رگڑنے سے نہیں آتیں۔ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے اقتدار میں آنا ضروری ہوتا ہے۔ حکومت ان ممبروں کی مدد سے مل سکتی ہے جنہیں ELECTIBLES کہتے ہیں۔ جس قماش کے یہ لوگ ہیں اس سے ساری قوم واقف ہے۔ انہیں بتدریج تو درست کیا جا سکتا ہے۔ راتوں رات ان کی ماہیت قلبی مشکل کام ہے۔ اگر سربراہ حکومت ایماندار ہو، انصاف پسند ہو، اقربا پروری سے اجتناب برتتا ہو تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر ما تحتوں پر بھی پڑتا ہے۔ گویا خود بخود منزل کی طرف پہلا قدم اُٹھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت اپنے زور پر منتخب ہوتی ہے۔ پارٹی ووٹ 10/15 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔
عمران کی سابقہ سب غلطیوں لغزشوں اور نا تجربہ کاری کو جمع کیا جائے تو وہ موجودہ فیصلے سے کم پڑتی ہیں۔ اب جبکہ الیکشن در پر دستک دینے لگے ہیں پارٹیاں اپنی صفیں درست کر رہی ہیں۔ رُوٹھوں کو منایا جا رہا ہے۔ جوڑ توڑ شروع ہو گیا ہے تو خان نے ایک ناقابل فہم ناعاقبت اندیشانہ قدم اُٹھایا ہے۔ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور بلوچستان کے ممبران پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہی ہے۔ خان نے اُن کے مو¿قف کی تائید کر دی ہے۔ اس نے بیک جنبش قلم خیبر PK کی اسمبلی کے بیس ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے اُن پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ضمیر فروشی کی ہے۔ پارٹی ڈسپلن توڑا ہے اور اپنا ووٹ سینیٹ الیکشن میں زر کثیر کے عوض بیچا ہے۔ ساتھ ہی دھمکی بھی دی ہے کہ ان کا کیس نیب کو بھیجا جائے گا۔ مخصوص لابی نے اسکی بڑی تعریف کی ہے خان کی دیانت اور جُرا¿ت کو سراہا ہے۔ یہ ”تنخواہ یافتہ“ لوگ ہیں جو خان کو مسلسل مشورہ دے رہے ہیں: تو ایک اصول پرست انسان ہے‘ دیگر جماعتوں کی بے اصولی پہ نہ جا۔ صرف نیک لوگوں از قسم مولوی نور دین اور غربا از قسم متلی کو ٹکٹ دو، رام بھلی کرے گا“۔ یہ کون لوگ ہیں ان کے پیچھے کونسی پارٹیاں ہیں؟ اسے سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں اس سے بڑا بچگانہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا جو فال آو¿ٹ ہو گا وہ سادہ لوح شخص سمجھ نہیں پا رہا مندرجہ ذیل باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
-1 اتنے زیادہ لوگوں کو پارٹی سے نکالنے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوگا اسے پُر کرنا مشکل ہوگا۔
-2 اس سے قیادت کی نااہلی ثابت ہوتی ہے جو پانچ سال تک ”گندے انڈوں“ کو پہچان نہ پائی۔
-3 بلا سوچے سمجھے ان کی شہرت کو داغدار کیا۔ اگر ان سب سے ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا تو عمران کیلئے اپنا دفاع مشکل ہو جائے گا۔
-4 یہ کیسے ثابت ہوگا کہ انہوں نے پیسے لئے! اس قسم کے سودے رات کی تاریکی یا بند کمروں میں ہوتے ہیں۔ گواہان صرف لینے اور دینے والے ہاتھ ہوتے ہیں۔
-5 اس کا ذکر نہیں کیا گیا جس نے انہیں خریدا ہے۔ خان نے تو پچاس کروڑ آفر کرنے والے کا نام بھی نہیں بتایا۔ اب لازم ہوگا کہ اُس کا نام ظاہر کیا جائے۔
-6 چوہدری سرور نے پارٹی ممبران سے کہیں زیادہ ووٹ لئے۔ اُنہیں بھی اصولاً نوٹس ملنا چاہئے۔ اسے ہی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو کہتے ہیں
-7 الزام علیہان میں سے کچھ لوگوں نے حلفاً کہا ہے کہ انہوں نے رشوت نہیں لی۔ ان کا کیا بنے گا؟ ان کی واپسی مشکل ہوگی۔ طفیل ہوشیار پوری نے کیا تھا ....
بچھڑ جاتے ہیں دو دل موڑ پر جب بدگمانی سے
تو پھر فاصلے مرنے سے پہلے کم نہیں ہوتے
نیب سے ڈرانے والی بات بھی بچگانہ ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ میں لیڈی میکبتھ کہتی ہے:
It is the eye of the child which fears the painted devil
-8 اس جلد بازی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پرویز خٹک کی حکومت اسمبلی میں اکثریت سے ”محروم“ ہو گئی ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد آ گئی تو یہ بہت بڑا دھچکا ہو گا‘ نفسیاتی طور پر بھی نقصان ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے اتحاد MMA نے انہیں زیادہ مضبوط کر دیا ہے۔ ANP بھی اس مرتبہ زیادہ فعال نظر آتی ہے۔ ان حالات میں کہیں ایسا نہ ہوکہ ”بازوو¿ں سے کان زیادہ لمبے ہو جائیں!“۔