بدھ ‘ 27 جمادی الثانی 1434ھ ‘ 8 مئی 2013 ئ
دھرنوں کے شیڈول کوحتمی شکل دیدی گئی۔ جمہوریت مصلوب کی جارہی ہے۔ طاہر القادریلیجئے جناب قبلہ علامہ کنٹینر صاحب ایک مرتبہ پھر جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی ” سازش“ لیکر وطن پدھارے ہیں، پہلے انہوں نے نامعلوم محسنوںکی مدد سے بھرپور کوشش کی کہ الیکشن نہ ہوں مگر انہیں منہ کی کھانی پڑی اور عوام کی اکثریت نے انہیں لفٹ نہیں کرائی اور بڑی مشکل سے علامہ صاحب” ہومیو پیتھک“ قسم کا معاہدہ کرکے اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوئے غالباً وہ بھول گئے ہیں....
جنہیں خدا کی طرح بولنے کی عادت ہے۔۔۔ انہیں زبان بشر میں کلام کرنا ہے
اس وقت بھی علامہ موصوف کا لہجہ اور انداز نشست و برخاست آمرانہ بلکہ شہنشاہانہ تھا ۔ عوام کو سردی و بارش میں سڑکوں پہ دھرنے کیلئے ٹھٹھرتا چھوڑ کر خود ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں تشریف فرما رہے۔ آج جب الیکشن 2دن بعد ہورہے ہیں علامہ پھر نامعلوم اشارے معاف کیجئے ” الہامات“ یا ”خوابوں“ کے زیر اثر پاکستان آکر دھرنوںکا مژدہ سنارہے ہیں اسے کہتے ہیں ” اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی“ جبکہ پوری قوم ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے‘ خدارا علامہ صاحب اس قوم کو معاف رکھیں۔ خدا خدا کرکے جمہوری سسٹم رواں دواں ہوا ہے تو اسکی راہ کھوٹی نہ کریں اگر آپ آہی گئے ہیں تو ایک اچھے شہری ہونے کے ناطے اپنا ووٹ تلاش کریں اور اپنا قیمتی ووٹ کسی ایماندار امیدوار کو ڈال کر وطن دوستی کا ثبوت دیں۔ یاد رکھیں دوہری شہریت رکھنے کے باوجود آپ پہلے پاکستانی اور بعد میں کچھ اور ہیں۔ ویسے بھی پہلے کی طرح اس ”ناکام دھرنے “ کے بعد بھی آپ نے واپس اپنے نئے دیس چلے جانا ہے عوام کو کھلے آسمان تلے بے یارومددگار چھوڑ کر‘ اس لئے مہربانی کرکے الیکشن کے رنگ میں بھنگ نہ ڈالیں۔
٭....٭....٭....٭
الیکشن مہم آخری مرحلوں میں پہنچ چکی ہے۔ امیدوار اور ان کے حمایتی نئے عزم اور جوش و خروش سے اپنے وطن کے سنہرے مستقبل کی خاطر گلیوں اور بازاروں میں عوام کو ووٹ ڈالنے پر تیار کررہے ہیں تاکہ ملک میں خلق خدا کی حکمرانی برقرار رہے اور کسی کو نمرود و فرعون بننے کا موقع نہ ملے۔ یہ ملک آمروں اور انکے پجاریوں کی خاطر نہیں عوام کیلئے بنا ہے تا کہ وہ عزت اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں مگر یہ بات کچھ اندھیروں کے باسیوں اور انکے سرپرستوں کوپسند نہیں آتی اور انہوں نے پُر امن انتخابی مہم کو خاک اور خون میں نہلانے کی اپنی مکروہ سازشوں سے عوام کوخوفزدہ تو کردیا ہے مگر عوام کے عزائم کو توڑ نہیں سکے۔ جا بجا دھماکے خودکش حملے، انسانی جانوں کا ضیاع عورتوں اور بچوں تک کو چن چن کر نشانہ بنایاجارہا ہے....
نعرے، ہجوم،گولیاں،لاشے،لہو تڑپ۔۔۔ گھر سے نکل کے دیکھ بڑی چہل پہل ہے
یہ ان ظلم و جہل کے نقیبوں کا منشور ہے اور وہ سیاہ رو اس پر عمل پیرا ہیں‘ مگر اے ملک دشمن دہشت گردو انسانیت کے قاتلو دیکھ لو اس ظلم و ستم کے باوجود عوام اس عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کے استعمال کیلئے تیار ہیں کہ یہ گولیاں، بم اور دھمکیاں انکے حوصلہ پست نہیں کرسکتے کیونکہ
” ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ‘ ۔۔۔ ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان“
بہتر یہی ہے کہ ظلم کے یہ سوداگر اپنی تیرہ بختی کے ساتھ جہالت کی سیاہ رات میں بد نصیبی کی چادر تان کر ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند لیںیا پھر اس مملکت خداداد میں ایک نئی صبح درخشاں کو خوش آمدید کہنے کیلئے غفلت سے بیدار ہوکر اپنی صدیوں کے طلسمات میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کھول کر اسے مرحبا کہیں اور روشنیوں کے نئے سفر میں اپنے دوسرے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔٭....٭....٭....٭
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہندو سرکاری ملازم گٹر صاف کرتے ہوئے دم گھٹنے سے بے ہوش ہو گیا‘ داﺅد اور حافظ اسد مدد کرنے کیلئے گٹر میں اترے تو خود بھی اسکے ساتھ دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔ہمارے لئے سرکاری ملازم وہ ہوتے ہیں‘ جو گاڑیوں پر جھنڈے لگائے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں لیکن اصل سرکاری ملازم بیچاروں کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نوجوان راجیش کا ہوا۔ بیچارہ مناسب مدد کے بغیر موت کے کنویں جیسے گٹر میں صفائی کرنے اترا تو جان کی بازی ہار گیا۔لیکن ابھی ابھی کچھ لوگ باقی میں جہاں ہیں جن کی وجہ سے یہ زندگی گلزار ہے اور انسان کے ہاتھوں جہنم بنائی اس دھرتی میں پھول کھلتے ہیں ورنہ جہاں دیکھئے انسان انسان کا دشمن ہے۔ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں ساغر صدیقی جیسا درویش بھی کہتا ہے....
اس رہزن حیات کی دنیا سے دور بھاگ ۔۔۔ مر بھی گئے تو چادر صحرا بری نہیں
ایک بات یہ بھی واضح ہے کہ اوپر والے نے تو یہ دنیا بہت خوبصورت تخلیق کی تھی مگر نیچے بسنے والوں نے اسے ذات برداری اور فرقوں کے نام پر تقسیم در تقسیم کرڈالا مگر ان باتوں کے باوجود جب کہیں سے انسان کو بچانے کیلئے اپنی جان قربان کرنے والوںکا تذکرہ آتا ہے ہمارے سرخودبخود انکے احترام میں جھک جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قابل تحسین ہوتے ہیں جن پر انسانیت ناز کرتی ہے۔آفرین ہے ان باہمت نوجوانوں پر جنہوں نے ایک انسان کی جان بچاتے بچاتے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔اگر یہی جذبہ ہمارے ملک کے تمام جوانوں میں بیدار ہوجائے تو وہ بھی داﺅد اور حافظ اسد کی طرح ہمارے جیسے کروڑوں انسان دوست پاکستانیوں کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پیارے وطن کو انہی جیسے بہادرجوانوں کی ضرورت ہے ۔
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں۔۔۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا