ملک بھرمیںانتخابی گہماگہمی اپنے عروج پر ہے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے ہر شہر کی شاہراہوں پر جگہ جگہ رنگین پوسٹرز اور بینرز لگا رکھے ہیں جن پر درج ہے کہ ہم کامیاب ہو کر ملک کی تقدیر بدل دیں گے....
صبح خدمت ‘ شام خدمت‘
ہمارا کام آپ کی خدمت
سابقہ انتخابات کی طرح حالیہ الیکشن کو بھی ہمارے ہاں ایک فیسٹیول اور میلے ٹھیلے کی طرح منایا جا رہا ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص، انتخابی نعروں کی گونج، مولاجٹ کے انداز میں سیاستدانوں کے جوشیلے خطابات، ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے فن کا عملی مظاہرہ، نرمی، شعبدہ بازی و رنگ بازی، وہی ڈرامے، وہی گھسے پٹے کردار، ویسے ہی روایتی ڈائیلاگ، وہی سٹوری، وہی میوزک، ویسے ہی ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔ تقریباً سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں اور اداکار سلطان راہی کی طرح ڈائیلاگ بول رہے ہیں۔عمران خان کا نعرہ ہے کہ نوجوان ہمارے ساتھ مل کر انقلاب لائیں گے اور 11 مئی کو شیر کے تکے بنا کر کھا جائیں گے۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ گیس‘ بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔علی پور چٹھہ میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی انتخابی جلسے کے دوران زبان پھسل گئی ، شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ کی بجائے بجلی کے خاتمے کا ہی اعلان کردیا۔ جلسے سے خطاب میں انہوںنے کہا کہ عوام وعدہ کریں کہ نواز شریف کے ووٹ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے میں وعدہ کرتا ہون کہ بجلی کو دو سال میں ختم کردوں گا۔ شہباز شریف کے اس اعلان پر اسٹیج پر موجود لیگی رہنما یک زبان ہو کر انشاءاللہ انشاءاللہ کہتے رہے اور کئی قہقہے لگاتے رہے۔
پیپلز پارٹی ٹی وی چینلز پر میاں شہباز شریف کے اس نوعیت کے بیانات بھی دکھا رہی ہے جن میں میاں شہباز شریف کبھی چھ ماہ کبھی ایک سال اور کبھی دو سال کے اندر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ایک اشتہار بھی لوگ بڑی دلچسپی سے اخبارات میں پڑھ رہے ہیں جس میں لکھا ہوا ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے کھا گئے سارا پاکستان ، جس پارٹی کے لیڈر نے اپنی لیڈر کے خون کا سودا کردیا ہو وہ ملک کا سودا کرنے میں کیا دیر لگائے گی۔ عوام لوڈشیڈنگ ، گیس، پٹرول، چینی اور مہنگائی کے بحرانوں میں سیاستدانوں کو کوستے ہیں۔ حالانکہ ہمیں خود کو کوسنا چاہیئے کہ ہم نے اپنے ووٹ کا غلط استعمال کیوں کیا۔ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگانا ہمارا مشغلہ ہے۔ کسی کو یہ پرواہ ہی نہیں کہ کسی کو پوچھے کہ بھائی آپ جو ووٹ مانگنے آئے ہیں آپ ہمارے لیے کیا کریں گے۔ لوڈشیڈنگ کے بارے میں آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں کتنی سنجیدہ ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سب پارٹیاں چھ مہینے سے تین سال تک کا ٹائم فریم دے رہی ہیں۔ لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کیسے، کونسی جادو کی چھڑی آجائے گی الیکشن جیتنے کے بعد کیسے لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ کوئی پارٹی بھی سچ نہیں بول رہی کہ لوڈشیڈنگ تو اس مافیا کا کمال ہے کہ جو اس غریب قوم پر اپنا فیول بیچ رہی ہے۔ اس مافیا سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کا اعلان تو کسی پارٹی نے نہیں کیا تو پھر کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ یہ پارٹیاں لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پارٹیوں کا مسئلہ عوام نہیں ہوتا بلکہ اقتدار ہوتا ہے نہ ہی عوام نے کبھی اپنی حیثیت کو کبھی منوایا ہے اس کی وجہ جمہوری کلچر کا نہ ہونا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی کسی بنیادی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں ہے بحیثیت قوم ہماری یادداشت بہت کمزور ہے ہم ہر نئے حکمران سے اچھی توقعات باندھ لیتے ہیں بعد ازاں قوم کو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ انتخابی سیاست روز اول سے چند دلفریب نعروں کے گرد گھومتی ہے مگر آنے والی حکومت بھی انہیں عملی شکل نہیں دے سکے گی۔ پاکستان کھربوںروپے کا مقروض ہو چکا ہے سٹیٹ بنک کی رپورٹ کیمطابق سابقہ حکومت نے 2012ءمیں 8 کھرب 53 ارب کے قرضے لئے تھے اندرونی و بیرونی قرض مسلسل لیتے چلے جانے اور حقیقی پیداواری مقاصد کی بجائے شاہ خرچیوں کی نذر کرتے رہنے کی روش وطن عزیز کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں 18 کروڑ کی آبادی میں سے ہر شخص 80 ہزار 894روپے کا مقروض نظر آرہا ہے جبکہ 2008ءسے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37ہزار 724روپے فی کس تھا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی مالیاتی پالیسی سے متعلق اطلاعات کے خلاصے پر مبنی رپورٹ اکتوبر 2012ءمیں دیئے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات جو 2008ءسے قبل 6 سال کے عرصے میں 6691ارب روپے تک جا پہنچے تھے اب بڑھ کر 14561 ارب روپے ہوگئے ہیں گویا پچھلے چار سال کے مجموعی قرضے اور واجبات پاکستان کی آزادی کے ابتدائی 60برسوں میں جمع واجب الادا رقوم سے دوگنا سے بھی زائد ہو چکے ہیں۔ وفاقی بجٹ کا آدھے سے زیادہ سود کی ادائیگی میں دے دیا جاتا ہے بجٹ کا 60 فیصد فوج کو دے دیا جاتا ہے بچارے عوام کیلئے کچھ بھی نہیں بچتا دکھ اس بات کا ہے کہ الیکشن لڑنے والی پارٹیوں نے اپنے منشوروں میں ملک کو قرض سے نجات دلوانے کی کوئی بات نہیں کی۔ اس سلسلے میں گذشتہ دنوں راقم نے ماڈل ٹا¶ن لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے بھی سوال کیا تھا کہ پاکستان اربوں روپے کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جب تک کوئی حکمران پاکستان کو قرضوں سے نجات نہیں دلوائے گا اس وقت تک پاکستان خوشحال نہیں ہوسکے گا میاں نواز شریف جب 1998ءمیں وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے قرض اتارو ملک سنوارو کی تحریک چلائی تھی کیا اب بھی نواز شریف ایسا کرینگے انہوں نے کہا کہ بالکل وہ ایسا ہی کرینگے اور جن سیاستدانوں نے اپنا پیسہ باہر رکھا ہوا ہے وہ بھی ہم باہر سے منگوائیں گے خدا کرے کہ وہ ایسا کرسکیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024