دنیا بھر میں جہاں جہاں سرور کائنات حضرت محمد مصطفی کے اُمتی موجود ہیں یہ خبر نہایت دکھ کے ساتھ سُنی اور پڑھی گئی کہ انٹرنیشنل تحریک ختم نبوت کے امیر اور پاکستان کی نہایت ہی اہم و متبرک روحانی ہستی حضرت خواجہ خان محمد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے صاحب فراش تھے مگر یہ بات کسی معجزہ سے کم نہیں کہ بیماری‘ نقاہت اور پیرانہ سالی کے باوجود اپنے مشن پر کام کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام نیک بندوں کو مختلف مشن سونپ کر دنیا میں بھیجتا ہے۔ حضرت صاحب بھی ایک خصوصی مشن پر کام کر رہے تھے اور وہ تھا ”تحفظ ختم نبوت“ ۔۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ حضرت صاحب نے اپنے مشن کو کاروبار نہیں بنایا اور ساری عمر نہایت خاموشی کے ساتھ تحفظ ختم نبوت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
میرے خاندان کے بزرگوں کی اکثریت حضرت صاحب کی باقاعدہ مرید تھی اور اس کا کریڈٹ خواجہ صادق کاشمیری مرحوم کو جاتا ہے جن کی دعوت پر میرے بڑوں کی اکثریت حضرت صاحب کے نہ صرف قریب ہوئی بلکہ مرید ہوئی۔
جب ان کے مرید ان کی محفل میں خاموش اور باادب بیٹھا ہوا کرتے شاید ایک میں ہوتا جو ان سے سیاست پر بات کرنے کی جسارت کر لیتا۔ ایک بار سیاسی باتوں کے دوران انہیں کریدنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ایک بار وہ میرے گھر پر تشریف فرما تھے اور میں باتیں کئے جا رہا تھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا ”باتیں کرتے ہو مگر کندیاں نہیں آتے کبھی چکر لگا¶“ ۔۔ میں کندیاں گیا وہاں کے روح پرور مناظر ناقابل بیاں ہیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ میں پاکستان کے کسی حصے میں ہوں‘ ماحول نور سے منور تھا ایک طرف بڑے حضرت صاحب اور ان کی والدہ ماجدہ کے مزارات ان کی عظمتوں کا ثبوت پیش کر رہے تھے دوسری طرف وطن عزیز اور دنیا بھر کے علماءکی چہل پہل کندیاں کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہی تھی۔
میں نے ساری زندگی حضرت صاحب سے فیض پایا ہے جب بھی کوئی مسئلہ یا مشکل پیش آئی فوراً حضرت سے رابطہ کیا آپ دعا فرماتے اور میری مشکل حل ہو چکی ہوتی۔ دنیا چھوڑ کر آپ کی اگلی منزل جنت ہے انشاءاللہ آپ کے جنت کا مکین ہونے کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے قول و فعل سے درجنوں غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لائے اور بے شمار قادیانیوں کو مرزا غلام احمد کا اصل چہرہ دکھا کر محمد کا عاشق اور غلام بنا دیا۔
میرے خاندان کے بزرگوں کی اکثریت حضرت صاحب کی باقاعدہ مرید تھی اور اس کا کریڈٹ خواجہ صادق کاشمیری مرحوم کو جاتا ہے جن کی دعوت پر میرے بڑوں کی اکثریت حضرت صاحب کے نہ صرف قریب ہوئی بلکہ مرید ہوئی۔
جب ان کے مرید ان کی محفل میں خاموش اور باادب بیٹھا ہوا کرتے شاید ایک میں ہوتا جو ان سے سیاست پر بات کرنے کی جسارت کر لیتا۔ ایک بار سیاسی باتوں کے دوران انہیں کریدنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ایک بار وہ میرے گھر پر تشریف فرما تھے اور میں باتیں کئے جا رہا تھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا ”باتیں کرتے ہو مگر کندیاں نہیں آتے کبھی چکر لگا¶“ ۔۔ میں کندیاں گیا وہاں کے روح پرور مناظر ناقابل بیاں ہیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ میں پاکستان کے کسی حصے میں ہوں‘ ماحول نور سے منور تھا ایک طرف بڑے حضرت صاحب اور ان کی والدہ ماجدہ کے مزارات ان کی عظمتوں کا ثبوت پیش کر رہے تھے دوسری طرف وطن عزیز اور دنیا بھر کے علماءکی چہل پہل کندیاں کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہی تھی۔
میں نے ساری زندگی حضرت صاحب سے فیض پایا ہے جب بھی کوئی مسئلہ یا مشکل پیش آئی فوراً حضرت سے رابطہ کیا آپ دعا فرماتے اور میری مشکل حل ہو چکی ہوتی۔ دنیا چھوڑ کر آپ کی اگلی منزل جنت ہے انشاءاللہ آپ کے جنت کا مکین ہونے کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے قول و فعل سے درجنوں غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لائے اور بے شمار قادیانیوں کو مرزا غلام احمد کا اصل چہرہ دکھا کر محمد کا عاشق اور غلام بنا دیا۔