فرمان قائد اور نوائے وقت

Mar 08, 2025

سید روح الامین....برسرمطلب

آج پچاسی سال کے بعد نوائے وقت کی پیشانی پر یہ عبارت دیکھ کر دلی خوشی و اطمینان ہوا ہے کہ نوائے وقت کا اجراء بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم سے جناب حمید نظامی نے 23مارچ 1940ء کو کیا تھا۔ بلاشبہ ایک قومی و نظریاتی اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کے لئے یہ ایک بہت ہی بڑا اعزاز ہے۔ یہ عبارت آغاز میں ہی لکھ دینی چاہیے تھی بہرحال ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق نوائے وقت کی منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ مبارکباد کی مستحق ہیں جنھوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) جناب کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری صاحب کی اس تجویز پر فوری طورپر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری ماشاء اللہ ایک محقق اور علم دوست شخصیت ہیں۔ ناچیز کے بارے حال ہی میں اْن کی کتاب ’’سیّد روح الامین۔ فروغِ اْردو کے لیے خدمات‘‘ منظرِ عام پر آئی ہے، جسے اصحابِ علم و دانش نے بے حد پسند کیا اور اْس کے لیے مضامین بھی لکھے جا رہے ہیں۔ غالب نے کہا تھا کہ :
 آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
 غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
آج 85 سال بعد ’’نوائے وقت‘‘ کی پیشانی پر قائد اعظم کا یہ فرمان درج کرانے کا یہ کریڈٹ یقینناً کرنل (ر) سیّد احمد ندیم قادری کو جاتا ہے۔ کرنل صاحب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
23مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو ہندو اخبارات و جرائد جسے ہندو میڈیا بھی کہا جاتا تھا، نے قراردادِ پاکستان کی مخالفت کی جبکہ مسلم اخبارات و جرائد نے تحریک پاکستان اور اس قرارداد کی بھرپور حمایت کی۔ ہندو اخبارات و جرائد نے تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے خلاف مہم شروع کر دی تھی۔ قائد اعظم کی ذرائع ابلاغ پر گہری نظر تھی۔ قائد اعظم ذاتی طور پر کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات کے مطالعے کے بھی بے حد شوقین تھے۔ برصغیر میں اخبارات و جرائد کا آغاز تو ہو گیا تھا لیکن مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم تھی۔ منٹو پارک لاہور میں پیش کی جانے والی قرار داد جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی، ہندو میڈیا نے اس کا بہت مذاق اْڑایا۔ اس بات کو بڑ ی شدت سے محسوس کیا گیا کہ مسلمانوں کو ذرائع ابلاغ پر خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کو بیدار نہیں کیا جا سکتا۔ جناب حمید نظامی بھی قائد اعظم کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے، لہٰذا اْنہوں نے قائد اعظم کے حکم پر 23مارچ 1940ء کو ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا۔ پہلے یہ پندرہ روزہ تھا بعد میں ہفت روزہ اور پھر روزنامہ بنا۔ قائد اعظم کا یہ خیال تھا کہ ہندو میڈیا کے خلاف مسلمان میڈیا بھی فروغ پائے جو کہ صرف اور صرف مسلمانوں کی نمائندگی کرے لہٰذا 1940ء سے لے کر نوائے وقت آج تک یہ فرائض بطریقِ احسن ادا کر رہا ہے۔ آزادی کی تحریک او رمسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ میں جن عظیم شخصیتوں نے موثر کردار ادا کیا، اقبال کا نام اْن میں سرِفہرست ہے۔ ان کی انقلابی نظموں اور اشعار نے مسلمانوں میں وہ شعور پیدا کیا جو اسلام کی روح کے مطابق تھا۔ ان کی شاعری میں دلوں کو تسخیر کرنے والی قوت تھی۔ یہ اقبال کی شاعری تھی جس نے مسلمانوں میں نہ صرف آزادی کی روح پھونکی بلکہ عمل کی راہیں بھی متعین کیں۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے نظریاتی بنیادوں پر مسلم ریاست کا ایسا تصور پیش کیا جو مثبت اخلاقی قدروں پر مشتمل تھا۔ کلامِ اقبال کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر جناب حمید نظامی مرحوم نے فرمایا تھا کہ ’’نوائے وقت‘‘ کے دو مقاصد ہیں اْن میں ایک تو کلامِ اقبال کی اشاعت اور کلامِ اقبال کو عام کرنا اور دوسرا اْردو زبان کی خدمت۔ حمید نظامی تو 1962ء میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے پھر یہ بیڑا اْن کے چھوٹے بھائی جناب مجید نظامی نے اْٹھایا اور اْنہی مقاصد کے حصول میں ذرا بھی کوتاہی نہیں برتی۔ کشمیر کے لئے صحافتی میدان میں جدوجہد ، قائداعظم اور علامہ اقبال کے پیغامات کی اشاعت، مظلوم طبقے کے خلاف آواز بلند کرنا روزِ اول سے لے کر آج تک ’’نوائے وقت‘‘ کا طرہّ امتیاز رہا ہے۔ بلاشبہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لئے صحافتی میدان میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے کا سہرا صرف اور صرف نوائے وقت کے سر پر ہی رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی نظربندی ہو یا کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم، حکومتِ وقت کو روزانہ کی بنیادوں پر یاد کرانا اور للکارنا صرف نوائے وقت کا ہی اعزاز رہا ہے۔ 2014ء میں جناب مجید نظامی بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ ناچیز کو بابائے صحافت جناب مجید نظامی کی شاگردی میں کالم لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ تحریکِ پاکستان و قیام پاکستان سے اسی انمٹ محبت کی بنا پر ناچیز نے اپنی دو کتابوں ’’اْردو بطور ذریعہ تعلیم‘‘ اور ’’پانچ دریا‘‘ کو نظریہ پاکستان کے پاسبان جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کے نام معنون کیا۔ 22جولائی 1996ء کو ’’پانچ دریا‘‘ کی ہالیڈے اِن لاہور میں تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی جس میں جناب مجید نظامی، چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اور محترمہ بشریٰ رحمن نے خصوصی طورپر شرکت فرمائی۔
جناب مجید نظامی کی وفات کے بعد اْن کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ نے شب و روز نوائے وقت کی ترقی کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کے مطابق 1940ء میں شروع ہونے والا اخبار آج 2025ء میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے مقاصد کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حدیث نبوی ’’جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہادِ افضل ہے‘‘ کے مطابق آغاز سے ہی حق کے لئے آواز بلند کرنے اور باطل قوتوں کے خلاف کھڑا ہونے کا اعزاز صرف ’نوائے وقت‘ کو ہی حاصل ہے۔
پاکستان میں نظریاتی و قومی صحافت کو شدید دھچکا اْس وقت لگا تھا جب جناب مجید نظامی کی رحلت ہوئی تھی۔ جناب مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو پیدا ہوئے تھے۔ تقریباً پچاس سال تک صحافت کی دْنیا سے منسلک رہے۔ ان کی پچاس سالہ صحافت کا مرکز پاکستان کا اسلامی تشخص اور بھارت دشمنی رہا۔ ایک موقع پر اْنھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں ایٹم بم سے باندھ کر انڈیا پھینک دیا جائے۔ جناب مجید نظامی نے زمانہ طالب علمی میں پاکستان موومنٹ میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی نے انھیں صحافتی خدمات پر اعزازی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری سے بھی نوازا تھا۔
جناب مجید نظامی ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب میں نے تحریکِ نفاذ اْردو میں اْن کو بھی شامل کرنا چاہا تو میں چند ناموں پر مشتمل ایک فہرست لے کر اْن کے دفتر میں حاضر ہوا تو اْوپر سرپرست اعلیٰ کا نام اْن کا تھا جس کے سامنے اْنھوں نے اپنے دستخط کرنے تھے۔ اْس فہرست میں نیچے ایک نام ایسا بھی تھا جس کے ساتھ محمد لکھا تھا، تو جناب مجید نظامی نے اْس نام کو اْوپر کر دیا اور اپنا نام نیچے کر دیا۔ میں نے پْوچھا تو فرمانے لگے کہ سیّد صاحب میں اس تحریک میں بطور کارکن آپ کے ساتھ ہوں۔ ساتھ فرمانے لگے کہ یہاں نوکریاں تو صرف انگریزی پڑھنے والوں کو ملتی ہیں۔ اْردو والوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مجھے بخوبی یاد ہے چوں کہ میں کالم جناب مجید نظامی صاحب کی خدمت میں ہی ارسال کرتا تھا۔ حکومتِ وقت کے خلاف بعض دفعہ سخت جملے بھی ہوتے تو آپ اْنہیں حذف نہیں فرماتے تھے۔ جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی اسلام، پاکستان، علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے سچّے اور پکّے عاشق تھے، لہٰذا تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور پھر استحکامِ پاکستان کے لیے صحافتی دنیا میں اپنی لافانی خدمات کا جو لوہا منوایا وْہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ پوری دْنیا میں صحافتی میدان میں جو مقام نوائے وقت میڈیا گروپ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ ناچیز کے لئے یہ باعثِ فخر و اعزاز ہے کہ جناب مجید نظامی کے حکم سے سب سے بڑے قومی و نظریاتی اخبار کے ساتھ دو دہائیوں سے منسلک ہوں۔ مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میرے CARD ACCREDITATION کے لئے فارم پر دستخط خود جناب مجید نظامی صاحب نے کیے تھے۔ جناب مجید نظامی کی صحافتی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے اْن کو ’’نشان امتیاز‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

مزیدخبریں