چند ہفتے پہلے جب ہر طرف سموگ اور فوگ نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔کہ ایک سہ پہرجب کچھ وقت کے لیے دھوپ نکلی دیکھی تو میں چائے کا کپ اور ایک کتاب ہاتھ میں پکڑ کے چھت پہ جا بیٹھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔دیکھا تو کوریئر والا ایک لفافہ لایا تھا ۔لفافہ کھولا اور فوری کتاب کا مطالعہ شروع کیا ۔کتاب سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خان صاحب کی ’بائیو گرافی‘ تھی ۔کتاب پڑھنی شروع کی تو بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ ارادے جن کے مضبوط ہوں وہ ہر طرح کے حالات میں آگے بڑے چلے جاتے ہیں ۔چیف صاحب کو بچپن میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہونا پڑا ۔اور پھر چھوٹی عمر میں وہ گھر ،وہ محلہ وہ شہر چھوڑنا پڑا جہاں کبھی باپ کی انگلی پکڑ کے چلا کرتے تھے ۔اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بٹالہ کے ’’بھائی دا ویہڑا‘‘ کی تازہ ہوا اکثر مجھے اب بھی بلاتی ہے بٹالہ کی زرخیز زمین جہاں حد ِنظر تک سر سبز جھومتے لہللہاتے اور گنگناتے کھیت انہیں اب بھی یاد ہے۔ارشاد صاحب کو بچپن میں ہی نہ صرف قائد اعظمؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا بلکہ وہ اپنے اعتماد کی وجہ سے مادر ِ ملت فاطمہ جناحؒ اور قائد کے درمیان بیٹھ کے ایک یادگار تصویر بھی بنوانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔تقسیم کے بعد پاکستان آئے تو پہلے اپنے بھائی کے ساتھ فرنیچر کی دکان پر بیٹھنا شروع کیا ۔۔ لاہور کے باغ جناح کی فضا انہیں بہت پسند تھی ۔جہاں بڑے بڑے روشنی کے لیمپ لگے ہوئے تھے جو ان کی پڑھائی میں آسانی پیدا کرتے ۔ اور پھر شام کے وقت فیروز سنز کے استقبالیہ کاونٹر پر عام سی نوکری سے زندگی کی شروعات کرنے والے نوجوان نے اپنے کام کو نوکری نہ سمجھا بلکہ توجہ ،دلچسپی اور لگن سے اسی کاونٹر پر کھڑے ہو کے وقت کے عالی مقام لوگوں سے واقف حال ہوتے ہوئے اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ ارشاد حسن خان صاحب کو اپنی ماں کی یاد تڑپاتی ہے ۔ لکھتے ہیں میری ماں ایک صابر و شاکر ،ملنسار اور مہمان نوازخاتون تھیں۔ہر حال میں رب کا شکر کرنے والی جلد ہی رب کے پاس چلی گئی۔
چیف صاحب لکھتے ہیں کہ آسانی نہیں بلکہ کوشش،سہولت نہیں بلکہ صعوبت سے انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ تبدیلی کا سفر اندر سے باہر کی طرف شروع ہوتا ہے،تبدیلی کے لیے آپ کا زاویہ نظر،کرد ار اور آپ کی نیت کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔یعنی کوئی جتنے بڑے عہدے یا منصب پر ہو اسے اتنا ہی زیادہ ذمہ دار اور قابل اعتماد بن کے دکھانا ہوگا ۔ہمارے ہاں حالات کچھ یوں ہیں کہ ایک سو روپے رشوت نہ دینے پر ہمارے دفتری بابو لوگوں کی خوشیوں کو پریشانیوں میں تبدیل کردیتے ہیں ۔لیکن اگر انسان غلط کے سامنے ڈٹ جائے تو سب آسان ہوجاتا ہے ۔ کچھ لوگ مصیبتوں کے سامنے مایوس اور دل شکستہ ہو کے راہ سے بھٹک جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مضبوط اعصاب کے بل بوتے ہر طرح کے طوفانوں سے ٹکرا جاتے ہیں ۔وہ کامیابی کے لیے دولت اور ہتھیاروں کا سہارہ نہیں لیتے بلکہ مسلسل کوشش اور صبر سے منزل کو جا پاتے ہیں ۔تاریخ میں جن لوگوں نے بھی کوئی ترقی کی ہے وہ وہی لوگ تھے جو ماحول کے دباو کو برداشت کر نے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک طالب علم کو گورنمنٹ کالج کے پرنسپل نے کالج بدر کر دیا۔وقت کے وزیر تعلیم صلاح الدین پرنسپل صاحب کے پاس چل کے آئے معافی مانگی لیکن پرنسپل صاحب نے معاف نہ کیا تو پارلیمانی سیکرٹری نے جسٹس ایس اے رحمن کی عدالت میں رٹ دائر کردی۔پہلی ہی پیشی پر جسٹس صاحب نے رٹ اُٹھا کے پھینک دی اورغصے میں کہا ’’ کون ہے جو کالج ایڈمنسٹریشن کے خلاف عدالت آئے۔
وکالت،اٹارنی جنرل،سیکرٹری قانون،ہائی کورٹ کا جج ،چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف الیکشن کمشنر اور پھر قائم مقام صدر پاکستان ۔لکھتے ہیں کہ ایک کمزور سے انسان کو مالک نے وہ رنگ دکھائے جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ نوجوانوں کے لیے کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری ایمانداری سے محنت کرنا ہوگی۔سب اللہ کے کھیل ہیں۔ انسان محنت کر سکتا ہے لیکن مقدر میں جو جب لکھا ہو تب ہی ملتا ہے ۔قسمت پر پورا یقین رکھنا ہوگا ۔جو انسان کی قسمت میں لکھا ہو وہ مل کے ہی رہتا ہے ۔جو ملنا ہے وہ ملنا ہی ہے یہ آپ کی مرضی ہے کہ اسے عزت سے حاصل کریں یا ذلت سے،جھوٹ سے یا سچ سے ،ایمانداری سے یا بے ایمانی سے،آج کل ہر کوئی پیار و محبت کے نہ ملنے کی شکایت کرتا ہے ۔(جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38