آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی قیود اور اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اس دن کو عورتوں کے جائز حقوق کی آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کے لیے منایا جائے تو یقینا اس دن کو بھرپور طریقے سے منانا چاہیے لیکن اگر محدود طبقے کی مادر پدر آزادخیال عورتیں بے پردگی، فحاشی اور مسلمہ اصولوں اور تعلیمات کے منافی مطالبات پر مشتمل بینرز اور کارڈز لے کر سڑکوں پر نکل آئیں تو ان کی شدید مذمت کی جانی چاہیے۔ بلکہ ایسے مظاہروں اور ریلیوں وغیرہ پر حکومت کی طرف سے پابندی ہونی چاہییے۔اسلام نے عورت اور مرد کے باہمی رشتے کو نکاح سے مضبوط کیا ہے۔ اگر کچھ خواتین شادی کے بغیر تعلقات کا مطالبہ کریں ۔ اور اس کو جائز سمجھیں تو ایسے غیر شرعی ، غیر اخلاقی اور غلیظ مطالبات کی شدید مذمت بلکہ مخالفت ہونی چاہیے۔گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر چند مغرب زدہ خواتین نے ایسا شرمناک مظاہر ہ کیا تھا۔جس کا اسلامی معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس مظاہرے میں خواتین نے جو کارڈز اور بینرز اٹھارکھے تھے وہ تعفن زدہ ذہنیت کے عکاس تو ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے ترجمان ہر گز نہیں ہو سکتے۔ یہ مظاہر ہ مغرب کی پروردہ غیروں کی تہذیب کے اخلاق باختہ، فحش، عریاں، بے دین اور بے راہ رو گمراہ طبقے کا نمائندہ تو ہو سکتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کی پردہ دار ، عفت مآب ، اور باعصمت خواتین کا ترجمان ہر گز نہیں ہو سکتا۔خدا کا شکر ہے کہ اب بھی ہمارے ہاں روحانیت کا فقدان نہیں اور ہم آج بھی اس مادیت زدہ معاشرے سے ہزار درجہ بہتر ہیں جہاں کنواری مائوں اور طلاقوں کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مغر بی دانشور اور مفکرین بھی چیخ اٹھے ہیں جہا ں خاندانی نظام سے محروم شفقت پدری اور محبت مادری سے ناآشنا نوجوان نسل سکون کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔آج اگر یورپ اور امریکہ میں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے تو غیر مسلم اسلام کے بڑھتے ہوے اثرات سے خائف ہو کر توہین رسالت جیسے مکروہ، قابل مذمت اور مذہبی منافرت پھیلانے والے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دنیا اسلام کی حقانیت پر مائل ہو رہی ہے اور اسی دین کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھ رہی ہے۔میںایک ربع صدی سے درس و تدریس سے منسلک ہوں اور اللہ کی توفیق سے ہزاروں طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کر چکا ہوں۔میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اس پر فتن دور میں ہماری طالبات کی اکثریت اسلامی اور مشرقی تہذیب اور اقدار کی امین ہے۔مجھے ان پر اعتماد بھی ہے اور یقین بھی کہ موبائل ، انٹرنیٹ اور میڈیا کے منفی اثرات کے نفوذ اور غلبے کے باوجودوہ اپنے دین سے محبت اور اقدار کی پاسداری پر کاربند رہیں گی اور ایسے فتنوں سے اپنا دامن بچائیں رکھیں گی۔معلم اعظم ؐ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے اصحاب کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے تھے اور اپنی ذات کو عملی نمونہ بنا کر پیش کرتے تھے۔اسی لیے آپؐ کے تربیت یافتہ افراد امت کے بہترین لوگ تھے۔ہمارے اسلاف اور بزرگوں کا طریق کار یہی تھالیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آج تربیت نہ تعلیمی اداروں میں ہورہی ہے اور نہ ہی گھروں میں اس کا اہتمام ہو رہا ہے
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی…خداکرے کہ جوانی رہے تیری بے داغ
(سید محمد ابرارشاہ بخاری 0332-515-6006خانقاہ پیرجی ہائوس ، جامع مسجد المظفر راولپنڈی )
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38