مغرب میں اسٹینڈ پوائنٹ تھیوری نے مرد کو Borgeois کلاس جبکہ عورت کو ورکنگ کلاس جیسے خانوں میں تقسیم کیا، یعنی مردproductive ہے جبکہ عورت گھرمیں بچوں کی نشوو نما کے لئے، دونوں کی سوچ،سوشل پوزیشن،دنیا کو دیکھنے زندگی گزارنے کے نظریات و تجربات الگ ہیں، سوشل اسٹرکچر مردوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے عورتmale dononating society میں زندگی گزرانے پرمجبور، مغرب میں عورت کواس لئے مرد سے کم تر مانا جاتا رہا کہ وہ ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے مرد سے کمزور ہے، اسے آزادی ء رائے کا حق حاصل نہ تھا کہ عورت مرد کی دستِ نگر رہی ہے،ہمیشہ مرد پرانحصار کرتی آئی کبھی باپ، بھائی، شوہر اور کبھی بیٹے کی صورت ، اس کے مفادات مرد کی ذات سے جڑے ہوئے اور یہ کہ عورت جسمانی طاقت کے لحاظ سے مرد سے کمزور ہے لہٰذا مردوں کی برابری کیسے کرے؟ سواسکی دن رات کی محنت کے باوجود معاوضے کی ادائیگی میں بھی اس کے ساتھ نا انصافی کی جاتی تھی اس کا کام stuck work کہلایا، یعنی عورت کوکوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے غلام کی سی تھی۔ مغرب کی ہی muted theory کے مطابق''عورتیں گونگی اور مرد بہرے ہیں'' چیرس کرامارے نے ''حقوقِ نسواں'' کی صدا بلند کی کہ عورت بے زبان نہیں سو اسے اپنی خاموشی توڑنا پڑے گی۔ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں پولیس نے عورتوں پر وحشیانہ تشدد کیا ان خواتین کو گھوڑوں سے بندھ کرسڑکوں پرگھسیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ چونکہ اس سے پہلے صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمّت کسی میں نہ تھی تھی اور نہ ہی جرأت سو خواتین پر ظلم کے خلاف یہ تحریک زور پکڑ گئی، اور خواتین اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے باہر نکل آئیں۔ 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین پوری دنیا میں اس سوچ کے ساتھ اہتمام سے منایاجاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لئے آوازبلند کرنے سے، لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے پیش قدمی کی ترغیب دینے سے خواتین کے حقوق کا حق اداہوجائے گا۔ ہرمعاشرے کی اپنی اقداراپنی روایات ہوا کرتی ہیں نیا آئیڈیا، نیا ٹرینڈ کسی بھی سوسائٹی کی روش، مزاج اور ذہنی سطح کو مدِ نظر رکھ کرمتعارف کرایا جاتا ہے ،چند مغرب زدہ خواتین کی طرف سے ہمارے معاشرے میں ''میرا جسم میری مرضی '' جیسا غیرشائستہ،غیر مناسب اورغیر مہذب نعرہ ببانگ ِ دہل بلند کیا جانا ناقابل ِ قبول رہا۔گوعورت کے سماجی اور معاشرتی استحصال کے خلاف یہ نعرہ metaphorically بلند کیا گیا، لیکن ''All men are trash'' کی حامی مٹھی بھرمغرب زدہ ''radical feminist''،ان کا کروفَر کا سا انداز اور چند بے ہودہ قسم کے پلے کارڈز شدید رَدِ عمل کا باعث بنے،غلط الفاظ کا چناؤاس تحریک کے مقاصد پر سوالیہ نشان ٹھہرا،اور ایک انتہائی منفی تاثر ابھر کر سامنے آیا، اچھے منشور پر بھی انگلیاں اُٹھ گئیں۔ حالانکہ یہ تو چیخ ہے خون میں لُتھڑی اس چھ سالہ زینب کی لاش کی جسکی بے حُرمتی کے بعد اس کی لاش کو کوڑے پر پھینک دیا گیا، یہ تو چیخ ہے اس معصوم فرشتہ کی جسے درندگی کا نشانہ بنا کر اسکی چیر پھاڑ کرنے کے بعد جنگل میں پھینک دیا گیا اور ایسی ہی کئی معصوم کلیوں کی دلدوز پکار !لیکن اپنی بات کی ترسیل کے لئے عام فہم اور شائستہ الفاظ کا نعرہ لگایا جانا چاہئے ،اپنی بات منوانے کے لئے دلائل کے ساتھ logically مثبت طریقہ ء کارسے بات کی جانی چاہئے ، چند ایلیٹ کلاس کی خواتین نے تحریک ِ حقوق ِ نسواں کے بجائے تحریک ِ آزادی نسواں کا منظر پیش کردیا ہے ، میں تو آج تک نہیں سمجھ پائی کہ عورت کو آخر کتنی آزادی چاہئے؟دیکھا جائے تو ایلیٹ کلاس کی خواتین کے تو مسائل ہی کچھ نہیں، عورت مارچ کا موٹو پڑھا جائے ، بات کرنی ہے تو نچلے طبقے کی خواتین کے حقوق کی بات کی جائے ۔پاکستان میں نچلے طبقے کی عورت ہمیشہ استحصال کا شکار رہی ہے، ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولیات میسر نہیں۔ وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہے، اس کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو کس طرح سے روک سکتی ہیں، دیہات اور قبیلوں میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے کبھی عورت غیرت کے نام پر قتل ہورہی ہے تو کہیں کم عمری میں اس کی شادی کرکے سر سے بلا اتار دی جاتی ہے، کبھی کاروکاری تو کہیں ونی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، کبھی تیزاب پھینک کر اس کو جیتے جی جہنم رسید کر دیا جاتا ہے تو کبھی معصوم بچی کو جنسی تشدد کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، جسمانی، ذہنی اور معاشی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے، چولھا پھٹتا ہے تو خواتین ہی کیوں لپیٹ میں آتی ہیں؟ بلوچستان کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں عورت کو '' قابلِ تبادلہ'' سمجھا جاتا ہے اور یہ رسم ''سوارا'' کہلاتی ہے بات اٹل ہے کہ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا جتنی عزت دی دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دی۔ ،تمام ادیان سے بڑھ کر خواتین کے حقوق کا تحفظ اسلام نے کیا ہے، اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا کہ سب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کا مذہب ہے، اسلام ہی نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کیآزادی عورت کا حق ہے لیکن یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کو اپنی اقدار، اپنی روایات، اپنے وقار کو کسی طور بھی مجروح نہیں ہونے دینا چاہئے، بے جا آزادی اور مغرب کی اندھی تقلید سوائے اندھیروں میں سفر کے کچھ نہیں....
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024