ہم جانتے ہیں کہ دل انسانی جسم کاانتہائی اہم عضو ہے اور اگر دل کی دھڑکن چند سیکنڈ بھی رک جائے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے اور دل کا مناسب رفتار کے ساتھ دھڑکنا صحت مندی کی علامت ہے اسی کے ذریعے پورے جسم کو خون فراہم ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک معاشرے میں خواتین فطرت کی طرف سے عائد دائروں میں جو ذمہ دارانہ کردار ادا کرتی ہیں وہ پورے معاشرے کو صحت مند اور مضبوط بنیادفراہم کرنے کے لیئے ناگزیر ہے۔بدقسمتی سے ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ خواتین کے اس کردار کو دنیا میں مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہیں اسے وہ عزت اور تکریم نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے اور کہیں اس کی ان صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں لیا جاتا جو کہ فطرت نے اس کو عطا کی ہیں ۔
8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد عالمی سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔آج کی مسلمان عورت ایک دوراہے پر کھڑی ہے ایک طرف مغربی تہذیب وثقافت کا سیلاب ہے جو ہمیں دین ،ایمان اور تاریخ و روایت سے کاٹ کر مغربی سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف قدامت اور روایت کے علمبردار رسم ورواج کو اقدار اور اصول کا درجہ دے کر وقت کے حقیقی تقاضوں سے مکمل صرف نظر کررہے ہیں یہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے نہیں،اگر ہم اپنی بنیادوں کو کمزور ہونے دیتے ہیں یا وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں تو مغربی یلغار کا مقابلہ ہمارے لیئے ممکن نہیں ہوگا۔مغلوبیت اور محکومیت سے بچنے کا راستہ ہمارے لیئے وہی ہوگا جو نبی کریمﷺ نے سکھایا یعنی اصول اور اقدار کے سلسلے میں مکمل استقامت اور ذرائع ووسائل کے باب میں ضروری لچک اور وسعت عورت تو معاشر کا وہ لازم جز وہے جو اصل میں سماج کی صورت گر ہے اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ ۔ woman is the real architect of society ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بی بی خدیجہؓ،بی بی فاطمہؓ،بی بی عائشہ ؓجیسی عظیم اور پاکباز ہستیوں کا بحیثیت خاتون معاشرے میں ایک مضبوط اور متحرک اور اپنے دائروں میں ایک خودمختار رول نظر آتا ہے ۔ماضی قریب میںنظر دوڑائیں تو بی اماں ،محترمہ فاطمہ جناح اور موجودہ دور میں بے شمارخواتین کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی حدود کی پاسداری کرتے ہو ئے نہ صرف عظیم مقاصد کے لیئے کام کیا اور اپنے ملک قوم کے ساتھ خاندان اور معاشرے کو فیض پہنچایا توساتھ ہی معاشرتی و دینی اقدارا ورروایات اور رشتوں کاپاس رکھتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا کہ عورت اپنے خاندان کا نگینہ ہی نہیں بلکہ اپنی قوم اور معاشرے کی عزت ووقار کا استعارہ بھی ہے۔ عورت پر ریاستی اور معاشی ذمہ داریاں اٹھانے کی کوئی پابندی نہیں۔ اگر وہ اپنی آزاد مرضی اور خوشی سے کام کرتی ہے اور شوہر سے بھی زیادہ کماتی ہے تب بھی شوہر اس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا پابند اور اس کا کفیل ہے نہیں تو ریاست اس کی کفالت کی ذمہ دار ہو گی۔ اس کے ساتھ مہر،وراثت میں حصہ، کاروبار یا ملازمت کے ذریعے عورت کی کمائی اس کی اپنی ملکیت ہے۔ اسلام کی طرف سے دیئے گئے عورت کے اس حق پرعمل درآمد کو %100 فیصد ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔اسلام میں عورت کا یہ اعزاز ہے کہ اس کو نسل انسانی کی تربیت کا کام سونپا گیا ہے اس کے لئے حضرت عائشہ، فاطمہ، خدیجہ الکبریٰ جیسی ہستیاں قابل تقلید ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم و تربیت کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جائیں او رانہیں ا ن کی فیلڈ سے متعلق اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ انکے لیئے علیحدہ تعلیمی اداروں کا قیام ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔ political empowerment کی بات کریں تو پاکستان میں عورتوں کو %33 نمائندگی دے دی گئی ہے جبکہ
Inter parliamentary Union نے دنیا کے تمام ملکوں کی عورتوں کی نمائندگی کے لحاظ سے ایک فہرست مرتب ہے۔ اس فہرست پر نمبر 1 پر رونڈا ہے، نمبر 32 پر پاکستان ہے۔ 49 پر برطانیہ ہے اور 59 پر امریکہ ہے جہاں عورتوں کی نمائندگی %13 ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو نی چاہئے۔مگراہلیت کی بناء پر، صنف کی بناء پر نہیں۔
معاشرے میں ہونے والی کی ہر ناانصافی کا اثر عورت پر پڑتا ہے وہ ناانصافی مرد پر ہو، بچوں پر ہو، معاشی ناانصافی ہو یا عدالتی اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عورت متاثر ہوتی ہے اور عورت ذہنی یا جسمانی طور پر بے سکون ہو تو ہو تو وہ اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام نہیں دے سکتی۔ آج پاکستانی عورت پریشان ہے اور واقعی اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں اسکے ساتھ دہری حق تلفی ہورہی ہے۔ ایک تو اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئینی وقانونی طور پر اسلام کے عطا کردہ حقوق نہیں دئیے جارہے۔ تو دوسری جانب عورت کے حقوق کے نام پر مغرب کے ناکام اور فرسودہ نظریات کو اس پر زبردستی تھوپا جارہا ہے۔ آج کے دور میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اسلام سے ملنے والے حقوق سے آگاہی دی جائے عورت کے جتنے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق ہیں اسے فراہم کیئے جائیں۔ •اسلام میں عورت کو دیئے گئے حقوق مثلاً حق ملکیت، کفالت اور وراثت کا عملاً حصول ممکن بنایا جائے ۔جہیز کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ •نکاح اور خلع میں ان کی مرضی ملحوظ رکھی جائے ۔• عورت اور خاندان کی حیثیت کو متاثر کرنے والے غیر اسلامی رواج کا خاتمہ کیا جائے عورت کے سماجی، معاشی، معاشرتی، قانونی ، تعلیمی اور طبی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ •ملازمت پیشہ خواتین کی عزت و وقار کا تحفظ کیا جائے •بے سہارا عورتوں کے لئے shelter homes بنائے جائیں، •جو ادارے خاندان کی بقاء کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، انکی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے۔ •مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ ابتداٗ ہی سے عورت کی عزت و تکریم اوراسکے حقوق سے آشنا ہوں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024