بھارت میںمسلمانوں کا قتل عام تو کئی سال سے جاری ہے خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے لیکن جب 5 اگست سے نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیونافذ کیا اور بھارتی آئین سے شق 370 اور 35 A کا خاتمہ کرکے ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کر کے اس کو بھارت کاحصہ بنانے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کے بعد سے بھارتی فورسز اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں آباد مسلمانوں کے ساتھ رویہ بدل گیا ہے اب آر ایس ایس کے غنڈے قاتل کا روپ دھار چکے ہیں اور انہیں کہیں بھی قتل عام کے لئے کسی بہانے کی ضرورت نہیں بلکہ جب ان کا دل چاہتا ہے وہ اپنے ڈنڈے، تلواریں اور دیگرہتھیار لے کر ایک گروہ کی صورت میں مسلمانوں کے محلوں میں جاکر لوٹ مار اور قتل عام شروع کردیتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ قانون صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہاہے، پولیس خود بلوائیوں کے ساتھ شامل ہوکر لوٹ مار میں لگ جاتی ہے عدالت میں اگر کوئی جج بلوائیوںکو سزا دے تو اس کا فوری طور پر تبادلہ کردیا جاتاہے یعنی اب بھارت میں غنڈہ گردی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ قانون بھی اس کے سامنے بے بس ہوچکاہے۔
برطانیہ کے قائد حزب اختلاف جریمی کوربن نے نئی دہلی میں بلوائیوں کے ہاتھوں قتل عام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔جریمی کوربن نے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ بھی اٹھاتے رہیں گے۔دوسری جانب نئی دہلی میں فسادات پر قابو نہ پایا جاسکا اور نئی دہلی میں فسادات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 42 تک جاپہنچی ہے۔ یہ تعداد بھی بھارتی نشریاتی اداروں کی بتائی ہوئی ہے جبکہ حقیقت میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اگر ہم حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو بھارت میں نہ صرف ہندوتوا کے حامی اور آر ایس ایس کے کارکن بلکہ دنیا بھر کے حکمران بھی مظلوموں سے ہمدردی کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے چکر میں ہی نظر آتے ہیں۔ نئی دہلی میں امریکی صدر ٹرمپ کی موجودگی میں دہشت گرد سنگھ پریوار کے مسلح جتھوں نے مسلمانوں کا جو قتل عام کیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ اس کو دیکھ کر 1947ء کے مسلم کش فسادات کی تلخ یاد تازہ ہوگئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ہندو غنڈے ’’بھارت صرف ہندوئوں کے لئے‘‘ کے نعرے لگاتے اور مسلمانوں کی املاک کو لوٹتے اور نذر آتش کرتے جبکہ مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے پھر رہے تھے اور پولیس بھی ان کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی، جب قانون خود مجرموں کے ساتھ مل جائے تو پھر انصاف کے لئے کس کے در پر دستک دی جائے۔ ظاہر ہے کہ پھر انسانیت سسکتی رہتی ہے، شرافت آنسو بہاتی رہتی ہے، زندگی موت سے بدتر ہوجاتی ہے، اور بھارت میں یہی کچھ ہوتا رہاکہ آر ایس ایس اور نریندر مودی کے مسلح غنڈے پولیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں، اْن کی املاک، مساجد، خانقاہوں، گھروں، دکانوں، پیٹرول پمپوں اور گاڑیوں پر حملے کر رہے تھے اور لوٹ مار کے بعد آگ لگا رہے تھے اور پولیس ان کا ساتھ دے رہی تھی جب پولیس خود غنڈوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو تو پھر شکایت کس سے کی جائے؟ یوں تو بھارت میں دو چار سو افراد کا جان سے گزرجانا معمول کی بات ہے وہ خواہ دلتوں کا معاملہ ہو یا گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے قتل عام کا، بھارتی پارلیمان پر حملہ ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زدگی یا پھر پلوامہ میں ’’دہشت گردی‘‘ انسان تو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دئیے جاتے ہیں، اور کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا، کہیں شکایت درج نہیں کی جاتی، شائد اسی کو جنگل کا قانون کہتے ہیں ، اصل میں ہماری نئی نسل نے ’’جنگل کا قانون‘‘ مختلف کہانیوں، خبروں، اخباروں میں پڑھا ضرور ہے لیکن دیکھا نہیں اور اب محسوس ہورہا ہے کہ شائد اسی کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہوگا جو بھارت میں نافذ ہے بلکہ جنگل کا قانون نافذ نہیں کیا جاتا مسلط کیا جاتاہے جبری طور پر۔ جو مانے وہ غنڈہ بن کر چاہے لوٹ مار کرے چاہے قتل کرے جو نہ مانے اس کو جیل میں ڈال دو یا سڑک پر ہی مار مار کر اتنا زخمی کردو کہ وہ حرکت کے بھی قابل نہ رہے یا دل چاہے اس کا قتل کردو قانون تمہارے ساتھ ہی رہے گا، یہی حال ہے آج کے بھارت کا تو اس کو کیا کہا جائے؟ آدمیوں کا جنگل، یا جانوروں کی ریاست، جس میں کہیں کہیں انسان پھنسے نظر آتے ہیں جو بول بھی رہے ہیں لیکن اتنے دھیمے لہجے میں کہ کہیں کوئی سن نہ لے، یہاں اقوام متحدہ کے نمائندہ آئیں تو ان کو کشمیر جانے کی اجازت دینے کے بجائے ملک سے نکال دیا جائے وہ پاکستان آئیں تو انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ آزاد کشمیر میں بھی جہاں وہ جانا چاہیں جانے کی اجازت دی جائے اور جس سے جو باتیں کرنا چاہیں انہیں اس کی اجازت دی جائے۔(جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024