بھارت کے وزیراعظم مودی نجانے کیسے وزیراعلیٰ اور پھر وزیراعظم بن گئے ہیں۔ انہیں صرف مسلمان دشمنی نے یہ کامیابی دلوائی ہے۔ بھارت اپنے آپ کو سیکولر ملک کہتا ہے اور ان متعصبانہ مظالم کا یہ حال ہے۔ بھارت ایک ہندو ملک ہے۔ دنیا میں صرف ایک ہی ہندو ملک ہے۔ بھارت اگر نہ رہا تو دنیا میں کوئی ہندو ملک نہ ہو گا۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو پھر بھی دنیا میں کئی دوسرے مسلمان ملک موجود ہیں۔ وہ سارے مسلمان ملک پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان واحد مسلمان ملک ہے جو ایٹمی پاور ہے۔ ایٹم بم ہم نے اپنی حفاظت کے لیے بنایا ہے۔ مگر بھارت یاد رکھے کہ اگر پاکستان کو خطرہ ہوا تو وہ ایٹم بم چلانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے سے دعوت کے بغیر بھارت کا دورہ کیا۔ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو دلی ائیر پورٹ پر صدر جنرل ضیاء الحق کا استقبال کرنا پڑا اور پھر الوداع بھی کہنا پڑا۔ صدر ضیا کی یہ بات بہت عام ہوئی۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے کہہ دیا کہ آپ بڑے ملک بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ اپنی فوجیں ہمارے بارڈر پر لے آئے ہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس وہ ’’شے‘‘ بھی ہے یہ سن کر راجیو گاندھی کا چہرہ فق ہو گیا۔ دوسرے دن بھارتی فوجیں پاکستانی بارڈر سے واپس چلی گئیں۔ تب تک پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تھے۔ یہ سعادت وزیراعظم نواز شریف کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ جنرل ضیا نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ کرے میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ نواز شریف کو اس دعا پر غور کرنا چاہئے۔ اس دعا کو عملی جامہ بھی پہنانا چاہئے۔ مودی کے ساتھ دوستی کے لیے اب یہ تاثر نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک پروپیگنڈا ہے اور یہ نعرہ ایک عمومی بات کی طرح عام ہونا چاہئے۔ مودی کا جو یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے۔
لیکن بڑے ادب سے گزارش ہے کہ جب نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو ایٹم بم بنانے والا عظیم سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان بہت دور کھڑا تھا اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نواز شریف کے ساتھ موجود تھا جبکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا ایٹم بم کی تیاری میں کوئی خاص حصہ نہ تھا۔
یہ تو پاکستان کے لوگ جانتے ہیں اور وہ ڈاکٹر قدیر خان سے بہت محبت کرتے ہیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے حوالے سے اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے شہباز شیخ ہر سال ایک بہت بڑی شاندار تقریب کرتے ہیں۔ جس میں نامور اولڈ راوینز شامل ہوتے ہیں۔ اس تقریب میں ڈاکٹر قدیر خان کو بھی بلایا جاتا ہے۔ میں نے وہاں ڈاکٹر قدیر خان سے محبت اور عقیدت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہوںنے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا ہے۔ ہم ان سے اور بھی بہت کام لے سکتے تھے مگر ہمارے سیاستدان اور حکمران بہت کمزور اور خود غرض ہوتے ہیں۔ اب ڈاکٹر قدیر تنہائی اور بیروزگاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے جو ساری پاکستانی قوم کیلئے عبرت کا مقام ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے پاس جائیں۔ ان سے مختلف معاملات پر ڈسکس کریں۔ انہیں اپنے پاس لے کے آئیں۔ اپنے پاس رکھیں۔ ان کی وجہ سے آج بھی پاکستان کیلئے کئی معرکہ آرائیاں ہو سکتی ہیں۔ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدر بنا دیا۔ وہ باقاعدہ منتخب ہوئے۔ ان کا نام ڈاکٹر عبدالکلام ہے۔ حیرت ہے کہ یہ دونوں ایٹمی سائنسدان مسلمان ہیں۔ دونوں بہت سادہ اور بالکل عام آدمی کی طرح ہیں۔ بھارتی سائنسدان کیلئے میں اندازے سے بات کر رہا ہوں۔ کوئی چالاک آدمی اتنا بڑا کام نہیں کر سکتا۔ یہ بھی یقین ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں کبھی ایٹمی جنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔ پاکستان کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں اور بھارت خوف کے مارے ایسی حرکت نہیں کرے گا۔
دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں۔ بھارتی الیکشن کا انتظار کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی معقول آدمی بھارت کا وزیراعظم بنے گا تو عمران خان سے بات بھی کرے گا۔ آخر کبھی تو مسئلہ کشمیر حل ہو گا۔ بھارت دنیا میں ایک بڑا ملک ہوتا اگر مسئلہ کشمیر نہ ہوتا۔ یہ بھارت کیلئے زیادہ مہلک ہے۔ عمران خان سے میری دوبارہ گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر قدیر سے ملیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024