کراچی کے پوش علاقوں میں افغان ڈاکویوں کے گروہ کے سرگرم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔گروہ کے ارکان کی تعداد 50ہے ، ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈز بھی موجود ہیں، سرغنہ افغانستان سے کنٹرول کرتا ہے،اس گروہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ان افغان باشندوں پر مشتمل جرائم پیشہ گروہ نے وارداتوں کے دوران خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا ہے۔اطلاعات کے مطابق گروہ کا سرغنہ کراچی میں موجود ڈاکووں کو افغانستان سے ہی کنٹرول کرتا ہے، جس نے افغان گینگ کے کیس پر کام کرنے والے تفتیشی افسر کو افغانستان سے فون کر کے دھمکیاں بھی دی ہیں۔چند روز قبل اس گروہ کا ایک رکن پولیس مقابلے میں ہلاک اور دو گرفتار ہوئے تھے جن سے ہونے والی تفتیش میں گروہ کے حوالے سے تفصیلات منظر عام پر آئیں۔اطلاعات کے مطابق یہ گروہ کراچی کے پوش علاقوں میں دو سے تین سے سے سرگرم تھا، خاص طور پر اس گروہ کے ارکان سردیوں میں افغانستان سے چمن اور چمن سے کوئٹہ کے ذریعے کراچی پہنچتے ہیں۔کراچی کے علاقوں مچھر کالونی، اتحاد ٹاون، بفر زون اور ختر کالونی میں اس گروہ کے افراد قیام کرتے ہیں، گروہ کے ارکان کی تعداد 50کے قریب ہے اور ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈز بھی موجود ہیں جو جعلی نہیں بلکہ ان کا ریکارڈ نادرا میں موجود ہے۔ایک مقامی شخص اس گروہ کے لیے پوش علاقوں میں ان گھروں کی ریکی کرتا ہے جہاں امیر افراد رہتے ہیں جس کے بعد گروہ دو ٹولیوں کی صورت میں واردات کرتے ہیں۔اس گروہ نے کراچی کے علاقوں کلفٹن، ڈیفنس، پی ای سی ایچ ایس، ناظم آباد و دیگر علاقوں میں واراتیں کی ہیں جن کی تعداد 100 کے قریب ہے۔اس گروہ نے کراچی کے چند ہائی پروفائل افراد کے گھروں پر بھی وارداتیں کی ہیں جبکہ گروہ کا ایک رکن واردات کے دوران اور ایک پولیس مقابلے میں مارا جاچکا ہے۔واردات کے دوران اس گروہ کے ارکان کی جانب سے خواتین سے زیادتی کا بھی انکشاف ہوا ہے جس کی کوئی رپورٹ پولیس کو درج نہیں کرائی گئی البتہ گرفتار افراد سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے۔یہ گروہ دو سے تین سال سے کراچی پولیس کے لیے درد سر بنا ہوا تھا اور پولیس اس گروہ کا سراغ لگانے کے لیے سرگرم تھی اور اس گروہ کا سراغ تکنیکی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لگایا گیا ہے۔ایس پی کلفٹن توقیر نعیم کے مطابق اس گروہ کے ارکان چمن اور کوئٹہ کے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں اور ایک وقت میں 6 سے 7 افراد پر مشتمل دو تین ٹولیوں کی صورت میں کراچی آکر وارداتیں کرتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024