سینیٹ الیکشن، شکست کی وجہ خود ایم کیو ایم
دنیا میں جہاں بھی سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں، وہ ایک سوچ اور عوامی مسائل کے حل،کسی قومی مقصدکے حل کیلئے قائم کی جاتی ہیں۔پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں معرض وجوود آئیں جو ایک مقصدیاکسی خاص منشورکے تحت قائم کی گئیں اور پھر اسی نعرہ کے تحت سیاست کرتی ہیں۔چاہے وہ روٹی، کپڑااور مکان ہو یا نیا پاکستان ہو۔اسی طرح کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہرکراچی کے داخلی دروازے پر تجارتی حب بھی تحریرکیاگیا ہے۔
80کی دہائی میں ایک جماعت معرض وجود میں آئی،جس نے کراچی کے مسائل کر اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کراچی کے مسائل کو حل بھی کیا۔ اس جماعت نے کراچی کی سیاست پر ایسا کنٹرول حاصل کیا کہ پاکستان کی کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت کو اگر ملک میں حکومت قائم کرنی ہوتی تو کراچی میں اس جماعت کے ساتھ اتحاد ضرور کرنا پڑتا۔اس جماعت نے اپنا تعارف تو ایک لسانی جماعت کی حیثیت سے کرایا لیکن مشرف دور میں اس جماعت نے اپنی جماعت کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ کردیا۔نام تو تبدیل ہوا لیکن اس کی شہرت میں کمی نہ آسکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس جماعت میں لوگ نظرئیے کی بنیاد پر شامل ہوئے تھے لیکن بعد میں اس جماعت کے حامی لوگوں نے شخصیت پر ستی کو ووٹ دینا شروع کردیا۔ابھی چندماہ سے یہ جماعت اپنی بقاکی جنگ میں مصروف ہے۔
لیکن حال ہی میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں اس جماعت کاجو حال ہوا ہے، اس کی امید نہیں تھی کیوں کہ اس جماعت کایہ حال شاید 2018 کے الیکشن میں ہونا تھا۔ایک وقت تھا، جب پاکستان میں الیکشن ہوتے تھے تو کراچی کی سیٹوں کے لیے کوئی بھی جماعت اتنی کوشش نہیں کرتی تھی کیوں کہ سب کو اندازہ ہوتا تھا کہ کراچی کا ووٹ بینک ایم کیو ایم کاہی ہے لیکن 2013کے الیکشن میں این اے 250 میں پاکستان تحریک انصاف کی فتح کے بعد کراچی کی سیاست میں ایک تبدیلی آئی اور کراچی کے لوگوں نے لسانیت کو چھوڑ کر دوبارہ سے نظریات پر ووٹ دینے کا اعادہ کیا۔کراچی میں قومی اسمبلی کی 42سیٹیں ہے اور اس کی تقریبا ًہر سیٹ پر ا یم کیو ایم کا نمائندہ الیکشن میں فتح حاصل کرتا تھا لیکن اب ایسے نتائج سامنے آنا مشکل بلکہ ناممکن محسوس ہو رہا ہے کیوں کہ اس جماعت میں پہلی تقسیم 92میں ہوئی جو آفاق احمد کی قیادت میں علیحدہ ہوگئی تھی اوراب بھی کسی حدتک متحرک ہے لیکن اس نے ابھی تک کراچی کی سیاست میں وہ مقام حاصل نہیں کیا، جو ایم کیو ایم یا کسی اور دوسری جماعت کا ہے،اس کے بعد 2013کے الیکشن کے بعد اس جماعت کا دوبارہ سے شیرازہ بکھرا 2016میں اس میں سے کچھ لوگوں نے کچھ عرصہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد دوبارہ سے کراچی کی سیاست میں انٹر ی کی اور کراچی کی سیاست میں ہل چل مچادی اور ایم کیو ایم کو کافی حد تک نہیں بلکہ مکمل نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کی سیاست میں کہیں بھی جوڑ توڑ ہو لیکن ایم کیو ایم کے رہنما اورکارکن اتنے پکے تھے کہ کسی بھی صورت حال میں ان کے بکنے کی امید نہ تھی لیکن 2016میں بننے والی جماعت پی ایس پی جس کی قیادت مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے کی، جب ایم کیو ایم کے بانی نے اپنے بیانات میں پاکستان مخالف اور مقاصد بھی ظاہر کرنا شروع کردیئے اور پاکستان کے خلاف نازیبا زبان بھی الفاظ کھل کر استعمال کی جو کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ توایم کیو ایم کی قیادت 2016 میں اس کے بانی سے چھین کر فاروق ستار نے اپنے ہاتھ میں تو لے لی لیکن شاید وہ اس عہدے کے تقاضوں کوپورانہ کرسکے اور ان کی قیادت میں اس جماعت کا شیرازہ مزید بکھرنا شروع ہوگیا۔اب اس کا یہ حال ہے کہ اب اس کی قیادت نہ فاروق ستار کے پاس ہے بلکہ نہ ہی عامر خان کے پاس۔ اس اثنا ء میں سندھ اسمبلی میں موجود ایم کیوایم کی خواتین ایم پی ایز نے سینیٹ الیکشن میں ووٹ ایم کیوایم کی بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو دینا بہتر سمجھا موجودہ صورتحال میں تو ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی میں آئندہ انتخابات میں اس تعداد میں سیٹیں نہیں جیت سکتی،جس طرح 90کی دہائی سے حاصل کرتی آرہی ہے۔