8 مارچ عالمی یوم نسواں ہے اس روز دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بڑی زوردار کانفرنس اور سیمینارز ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی اور خواتین حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کا عزم کرتی ہیں۔ جہاں جہاں عورتوں کے حقوق غصب ہیں یا ان کی پامالی ہو رہی ہے۔ ان عورتوں کی حمایت میںقراردادیں منظور کی جاتی ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے موقع پر عالمی برادری کو فلسطین، کشمیر ، شام اور میانمار میں بدترین فوجی بربریت کا نشانہ بننے والی خواتین نظر نہیں آتی ان تینوں علاقوں میں خواتین کو بدترین ریاستی دہشت گردی ہی نہیں فوجی بربریت کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہزاروں فلسطینی خواتین اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مر رہی ہیں۔ تشدد سہہ رہی ہیں۔ جیلوں میں سزا بھگت رہی ہیں۔ شام میں امریکہ اور روس اپنے حلیفوں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ مل کر لاکھوں شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ان میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ جنہیں انسانی جنگی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کشمیری عورتیں بھارتی فوج کے ہاتھوں درندگی کا نشانہ بن چکی ہیں، بیوہ ہو گئی ہیں۔ ان کی گود بچوں سے خالی ہو رہی ہیں۔ ہزاروں عورتیں اپنے لاپتہ عزیز اور اقربا کی واپسی کی امید لگائے زندہ لاشیں بن چکی ہیں۔ ایسی ہی بدترین حالت میانمار میں ہے جہاں بودھ غنڈے اور فوجی مردوں کو قتل اور عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں چونکہ ان تمام سانحات کا تعلق مسلم ممالک اور مسلمانوں سے ہے اس لئے عالمی برادری اس طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ اہمیت کے لحاظ سے ان تمام مقامات پر حالات ابتر ہیں۔ اس کے باوجود انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اس طرف وہ توجہ نہیں دے رہیں۔ جو دی جانی چاہئے۔ اگر ایسے ہی روح فرسا حالات اور واقعات کسی مغربی ملک میں یا غیر ملک اقلیت کے ساتھ کسی مسلم ملک میں پیش آرہے ہوتے تو پوری دنیا میں کہرام مچ چکا ہوتا دنیا بھر کی تنظیمیں وہاں پہنچ چکی ہوتیں۔ اب ایسے حالات میں کیا ان تنظیموں کا یہ دن منانا درست ہے۔ جب کہ وہ عورتوں کے لئے آواز بلند کرنے میں بھی تعصب سے کام لے رہی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے حکومت پاکستان بہت کام کر رہی ہے مگر اس کے باوجود ہنوز بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ پاکستان میں عورتیں ایک ورکنگ وومن ہونے کے باوجود ان تمام سہولتوں سے محروم ہے جو اسے حاصل ہونا چاہئیں۔ شہر ہوں یا دیہات گھریلو عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتی ہیں۔ گھر کی مالکان ہونے کے باوجود سارے گھر اور گھر والوں کا کام کاج کھانا پکانا، کپڑے دھونا، برتن دھونا اور صفائی کرنا اس کی ذمہ داری متصور ہوتی ہے۔ مرد اس ضمن میں بری الذمہ ہوتے ہیں۔ دیہات میں کھیتوں وغیرہ میں جا کر اضافی کام اور ڈورڈنگر سنبھالنا پانی بھر کر لانا بھی عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، منفی امتیاز، ہر معاملے میں امتیازی سلوک اور بہت سے معاملات میں ان کی حیثیت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بیٹیوں کو آج بھی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ وٹہ سٹہ کی شادیاں عام ہے۔ کاروبار کے نام پر ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ کم عمری میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ انہیں جانوروں کی طرح فروخت کیا جاتا ہے۔ بااثر افراد بڑے دھڑے سے غریب اور اقلیتی طبقے کی لڑکیاں اٹھا کر اغوا کرکے لے جاتے ہیں انہیں غلام بنا کر رکھیل بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ان سے غلاموں کی طرح کام لیاجاتا ہے معاوضہ میں صرف کھانا کپڑا ملتا ہے۔ عام گھروں میں خواتین پر تشدد عام ہے۔ اسے والد، بھائی، شوہر اور بیٹوں تک کا تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔
دیہی علاقوں میں تو خواتین کی حالت خاصی ابتر ہے۔ گھر کے ساتھ ساتھ وہ کھیتوں میں بھی مزدوری کرتی ہے۔ شہروں میں گھریلو ملازمائیں عام ہیں۔ کارخانوں میں فیکٹریوں میں کام کرنی والی خواتین کو اجرت مردوں کی نسبت کم ملتی ہے۔ چھٹیوں کے پیسے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ حکومت یا کوئی ادارہ ان گھریلو ملازمت پیشہ خواتین کی رجسٹریشن کر کے انہیں سرکاری مراعات معاوضہ اور رخصت دلانے کی نیم دلانہ کوشش بھی نہیں کرتا کم عمر ملازمین کو تو باقاعدہ غلاموں کی طرح خریدا اور رکھا جاتا ہے۔ نجی شعبہ میں کام کرنے والی خواتین کو بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ کام پورا لیا جاتا ہے۔ کالجوں، سکولوں، یونیورسٹیوں میں سڑک اور بازاروں میں انہیں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسکے خلاف قانونی سازی ہوچکی مگر اس پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے ان کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہیں۔ تعلیمی میدان میں بھی وہ مردوں سے کافی پیچھے ہیں جب کہ ان کی آبادی پاکستان میں مردوں کے برابر ہے۔ اس کے باوجود کہ خواتین اعلی تعلیم حاصل کرتی ہیں مگر اس کے بعد بھی ان کے خاندان والے انہیںملازمت کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی شادی کے بعد شوہر چاہے تو وہ کام کر سکتی ہیں۔ اکثر لڑکیوں کی شادی کم عمری میں سکول کے دور میں یا میٹرک کے بعد ورنہ حد سے حد ایف اے کرنے تک کر دی جاتی ہے۔
ان معاملات میں حالات میں بہتری لانے کے لئے قانون سازی کے باوجود ان قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس ضمن میں حکمرانوں کو بہت کام کرنا باقی ہے۔ خاص طور پر خواتین کے اغوائ، زیادتی، قتل اور تیزاب گردی کے جرائم کے خلاف سخت سزائوں کا نفاد یقینی بنانا ہوگا۔ بحیثیت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی عورتوں کے احترام اور حقوق کا خیال رکھنا ہو گا اور انہیں معاشرے میں ان کا جائز مقام دینا ہو گا جب تک عورتوں کو عزت احترام، تعلیم، روزگار میں مساوی حقوق نہیں ملتے۔ ہم لاکھ عالمی خواتین کا دن مناتے رہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ عورت کوئی دوسرے درجہ کی مخلوق نہیں۔ اسلام میں اسے جو حقوق حاصل ہیں اگر وہی انہیں ملیں تو معاشرے میں عورتوں کے خلاف تعصب اور جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ مگر ہمارے پدرسری معاشرے میں ایسا نہیں ہو رہا یہاں ہر جگہ مردوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کو گھر میں خاندان میں معاشرے میں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خواتین کو ان کے حاصل کردہ مذہبی آئینی اور قانونی حقوق دینے کے لئے حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کریں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اس بات پر آمادہ بھی کرے جو لوگ یا ادارے یا طبقات ایسا نہیں کرتے ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024