1907ء میں نیویارک کی ملبوسات سازی کی صنعت سے وابستہ خواتین نے پہلی مرتبہ دس گھنٹے کام کے عوض تنخواہوں میں اضافے اور اوقات کار میں کمی کیلئے آواز اُٹھائی۔ احتجاج کیلئے عورتیں سڑکوں پر نکل آئیں تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا، گھڑ سوار پولیس نے سڑکوں پر بالوں سے کھینچا اور سخت تشدد کیا۔ 1908ء میں سوئی سازی کی صنعت سے وابستہ خواتین نے جبری مشقت لینے کے خلاف مظاہرہ کیا تو پھر ان پر ریاستی تشدد کے ذریعے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ 1910ء میں ایک روسی ایکٹویٹ خاتون ’’کلاراد ٹیکین‘‘ نے اس موومنٹ کے دن کو پہلی دفعہ ایک کانفرنس میں خواتین کا عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تب سے ہر سال 8 مارچ کو دنیا کے ممالک خواتین کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ پہلے دنیا بھر میں یہ دن محنت کش عورتوں کے حوالے سے منایا جاتا تھا جب سے اقوام متحدہ نے اس دن کو دنیا بھر کی عورتوں کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منانا شروع کیا تو اب اسے عورتوں کی یکجہتی اور برابری کی جدوجہد کے طور پر منایا جانے لگا اور اب یہ جدوجہد پوری انسانیت کے ساتھ جُڑ چکی ہے۔ 1972ء میں اقوام متحدہ نے 1975ء کے سال کو خواتین کا عالمی سال قرار دیا اور خواتین پر پہلی عالمی کانفرنس 1975ء میں میکسیکو میں منعقد کی جس کے مقاصد تھے ’’عورتوں مردوں میں مساوات‘‘ ترقی میں عورتوں کی شرکت یقینی بنائی جائے، عالمی امن کے قیام میں عورتوں کام حصہ بڑھایا جائے۔ 1985ء میں خواتین پر دوسری عالمی کانفرنس اقوام متحدہ نے سنیردبی میں منعقد کی جس میں میکسیکو میں مقرر کئے گئے مقاصد کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مکمل نتائج تو حاصل نہ کئے جا سکے مگر قابل ذکر حاصل یہ تھا کہ دنیا بھر کی خواتین کے حالات کا منظرنامہ کُھل کر سامنے آیا۔ خواتین کی زندگی اور حالات کے بارے معلومات کا خزانہ اکٹھا ہو گیا۔ فیروبی میں خواتین کے نقطہ نظر کے حوالے سے ترقی کا نیا مفہوم تعین کیا گیا جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کی عورتوں کے بارے میں چوتھی عالمی کانفرنس بیجنگ میں منعقد ہوئی جس میں پچھلی کانفرنسوں کے فیصلوں کو مربوط کیا گیا۔ حکومتوں نے منفی پس منظر کے حوالے سے خواتین کے مسئلے کو اجتماعی سطح پر رکھنے کا عہد دہرایا۔ اس کے علاوہ کئی ممالک نے خواتین کیلئے قومی منصوبے بنانے کا عزم کیا۔ عورتوں کی چوتھی کانفرنس میں دنیا بھر میں عورتوں کو بااختیار بنانے کا نقشہ دیا گیا یعنی ہر جگہ عورتوں کو کم سے کم 33 فیصد نمائندگی ملے اور حکومتوں میں عورتوں کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ بیجنگ کانفرنس میں دنیا بھر سے 50 ہزار این جی اوز نے شرکت کی جس میں پاکستان سے 200 این جی اوز ایکٹیویٹ خواتین نے بھرپور شرکت کی۔ پاکستان میں بھی 8 مارچ اسی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن خواتین کو مل بیٹھ کر عورتوں کے مسائل پر بات کرنے اور حکمت عملی طے کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان معاشرے کے دو بڑے اہم پہلو ہیں ان میں سے ایک پہلو وہ ہے جس میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عزت دی جاتی ہے نہ واجب الاحترام سمجھا جاتا ہے وہیں اس کا دوسرا نمایاں اور تاریک پہلو وہ ہے جس میں عورتوں کی تذلیل کی بے شمار صورتیں ہیں جیسا کہ کاروکاری (غیرت کے نام پر قتل) کرنا بدلہ/ صلح میں لڑکیوں کو دے دینا ’’ونی‘‘ بھی کہتے ہیں۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں پر سیڈا کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ کنونشن دنیا کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن ہے مگر پھر بھی پدر سری نظام سے پاکستانی معاشرہ جُڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے حکومتی افراد بیورو کریٹ، پولیس، جج، سیاستدان منفی مسائل کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں رکھتے۔ جاگیر دارانہ قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ اور فرسودہ رسم و رواج ابھی تک مضبوط ہیں ہمیں اس سوچ سے چھٹکارا پانے کیلئے فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔
(2002ئ) بیشک پچھلی حکومت کے دور میں عورتوں کی ترقی کے بہت سے مواقع ملے، لوکل باڈی میں عورتوں کو 33 فیصد، صوبائی و قومی اسمبلی اور سینٹ میں پہلی دفعہ 17 فیصد نمائندگی دے کر سیاسی بااختیاری دی گئی۔ معاشرے میں خواتین کے مقام کو بہتر بنانے کیلئے ’’قومی کمشن برائے حیثیت خواتین (NCSW)‘‘ کا پہلی دفعہ قیام، سرکاری اداروں میں خواتین کیلئے 10 فیصد کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ پاکستان ائر فورس میں خواتین پائلٹس، نیوی اور بری فوج میں پہلی دفعہ خواتین کو شامل کیا گیا۔ ہر ضلع میں دیہی خواتین کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے کیلئے ’’جفاکش‘‘ پروگرام شروع کیا گیا (GRAP) جینڈر ریفارم پروگرام کے ذریعے خواتین کو ہر سطح پر برابر لانے کا کام شروع ہے۔ قانونی تحفظ کیلئے قانون سازی کی گئی، صحت اور روزگار کیلئے بہت کام ہوئے مگر پاکستانی خواتین عالمی سطح اور جنوبی ایشیا کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں۔ عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا نہیں جاتا۔ دیہات میں 70 فیصد کام کرنے والی خواتین کو ریکوگنائز نہیں کیا جاتا، اس کے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر اُن کے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ ہے کہ منصوبہ سازی میں اول تو خواتین کی نمائندگی ہوتی ہی نہیں اور اگر ہے تو بہت کم ہے۔
قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملکی ترقی میں حصہ نہ لیں۔‘‘ عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔ جوں جوں عورت اپنے حقوق حاصل کرتی جائے گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔ آج ہمارا نعرہ ہے ’’عورت منظم ۔ پاکستان روشن‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38