8 مارچ دنیا بھر کی عورتوں کی جدوجہد اور برابری کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اسے عورتوں کی یکجہتی اور امن کے طور پر بھی منایا جانے لگا ہے۔ یہ جدوجہد اب پوری انسانیت کے ساتھ جُڑ چکی ہے۔ قیام پاکستان کو 65 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں، انسانی سماج اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے مگر آج بھی پاکستانی سماج اٹھارہویں صدی میں رہ رہا ہے جبکہ ہمارے سوچنے کا انداز سات سو سال پیچھے ہے۔ جاگیر دارانہ پیداواری رشتے ٹوٹ گئے ہیں مگر جاگیر دارانہ ذہنیت، قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ، رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں ۔ہمیں اس سے چھٹکارا پانے کیلئے نئے فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہمارا سماج بڑے متعصب اور امتیازی رویوں کا حامل ہے۔ پاکستان میں آبادی کا تقریباً 50 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر پیدائش کے وقت سے ہی پاکستانی عورتوں کی اکثریت کیلئے روشن امید نہیں ہوتی۔ یہ بھی درست ہے کہ ان نامساعد حالات کے باوجود ہماری خواتین نے ترقی کی ہے مگر پھر بھی بعض شعبوں میں جنسی تفاوت میں اضافہ ہوا ہے۔ مردوں کی نسبت تعلیم، صحت، روزگار یا قانونی حیثیت ہو پاکستانی عورت عالمی سطح اور جنوبی ایشیا کے مقابلے میں پسماندہ رہی ہے۔ عورتوں کی اس حالت کے ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر ہیں۔ جاگیر دارانہ ذہنیت اور ایک خاص مائینڈسیٹ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے سماجی شعبوں، سیاسی جماعتوں اور معاشی ترقی میں عورتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے ۔ عورتوں کے کام کو قومی آمدنی میں نامناسب اعداد و شمار کی وجہ سے شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی معاشی پالیسیوں کی پلاننگ میں عورتوں کی رائے لی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بڑی تعداد میں خواتین ہیں مگر پارٹیوں کے اندر بھی خواتین کو اہم فیصلوں میں شرکت کا حق نہیں ہوتا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ 1988ءکے بعد جو مختصر سی تعداد میں خواتین اسمبلیوں میں ہوتی تھیں ان کی یہ نمائندگی بھی ختم کر دی گئی۔ آج بڑی بڑی باتیں کرنے والی پیپلز پارٹی دو دفعہ اقتدار میں آئیں مگر اس نے اسمبلی میں عورتوں کی نمائندگی بحال نہیں کی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) جو دو دفعہ اقتدار میں آئی 1997ءمیں تو ان کے پاس دو تہائی اکثریت بھی تھی مگر انہوں نے بھی خواتین کو اسمبلی میں لانا گوارہ نہ کیا۔ پہلی بار 2001ءمیں قائداعظم کے فرمان کے مطابق فیصلہ سازی میں خواتین کو شریک کرنے کیلئے ضلعی حکومت میں خواتین کو یونین کونسل تحصیل / شہر اور ضلع کی سطح پر 33 فیصد نمائندگی دی گئی پھر 2002ءمیں قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں پہلی بار 17 فیصد نشستیں مخصوص کی گئیں۔ خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی لحاظ سے بااختیار بنانے کے عمل کو بھی شروع کیا گیا جیسا کہ سرکاری اداروں میں خواتین کیلئے ملازمتوں میں دس فیصد کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ بری، بحری اور ائر فورس میں پہلی بار خواتین کو لڑاکا فورس میں شامل کیا گیا۔ رینجرز اور پولیس فورس میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد پہلی بار شامل کی گئی۔ ہوم بیسڈ خواتین کو سماجی اور معاشی تحفظ دینے کیلئے ایک قومی پالیسی بنانے کیلئے کام شروع کیا گیا۔ تجارت کرنے والی خواتین کیلئے بڑے شہروں میں خواتین کے چیمبر قائم ہوئے۔ خاص طور پر خواتین کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کیلئے ”جینڈر ریفارم پروگرام“ شروع کئے گئے دیہی خواتین کو معاشی طور پر خودکفیل کرنے کیلئے جفاکش پروگرام شروع کیا گیا۔ خواتین کو سماجی لحاظ سے بااختیار بنانے کیلئے بہت سی قانون سازی کی گئی۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستانی خواتین میں خود اعتماد اور شعور کی آگاہی ہوئی۔ تاہم ابھی خواتین کو بااختیار بننے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہو گی۔ ہمارا مذہب اور ہمارا آئین خواتین اور مردوں کو قومی زندگی کے تمام مواقع یکساں طور پر فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کی عملی شکل کیا ہے اس کا اندازہ اقتصادیات کے مختلف پہلوﺅں پر تحقیق کرنے والے ادارے ”ورلڈ اکنامک فورم“ کی رپورٹ ”گلوبل جینڈر گیپ“ سے ہوتا ہے اس کے مطابق پاکستان مردوں اور عورتوں کو حاصل مواقعوں کی درجہ بندی میں 134 ممالک میں 132ویں نمبر پر ہے۔ خواتین کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔ جوں جوں خواتین اپنے حقوق حاصل کرتی جائیں گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔ آج کی عورت کمزور نہیں وہ اکیلی بھی نہیں اسی لئے میرا کہنا ہے کہ ”تم خود کو بدلو تو ہی سماج کو تبدیل کیا جا سکے گا۔“ اب ہم گُھٹ گُھٹ کر نہیں جئیں گے بلکہ سر اٹھا کر جئیں گے۔ یہ نئی صدی کا قانون ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024