sarashafiq2@hotmail.com
سیاست سے نابلد آرمی قیادت سے کسی خیر کی توقع کرنا حماقت ہے۔ جنرل پرویز مشرف ایک سات نکاتی مثبت پروگرام لے کر سیاسی میدان میں اترے۔ دوسرے بہت سے سیاستدانوں کی طرح جناب اجمل خٹک اور عمران خان نے بھی شروع میں ان کے پروگراموں کی تائید اور عملی امداد کی۔ پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں میں حسب روایت توڑ پھوڑ کرکے ایک سرکاری پارٹی بنائی۔ احتساب کا ڈول ڈالا گیا لیکن انجام اس قدر افسوسناک ہوا کہ 8 سالہ دور اقتدار قومی تاریخ کا ایک اور سیاہ دھبہ بن گیا۔
18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجہ میں جوسویلین حکومت مرکز میں قائم ہوئی۔ پوری قوم نے اس جمہوری حکومت سے امیدیں باندھ لیں۔ آغاز بے حد مثبت انداز میں ہوا۔ وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کا انتخاب بلامقابلہ ہوا۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تاکہ اس مرتبہ جمہوریت کاتجربہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے لیکن اقتدار کے نشہ میں بدمست سیاستدانوں نے ایک مرتبہ پھر ہر شعبۂ زندگی کو تلخیوں سے بھردیا۔
تیل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے مہنگائی کا سیلاب لایا گیا۔ آزاد عدلیہ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ایوان صدر کوایک سیاسی جماعت کا ہیڈ آفس اور اقتدار کا سرچشمہ بنا دیا گیا۔ پچھلے ادوار کی حماقتوں اور غلطیوں کو ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا۔ قومی خزانہ کو بے دردی سے اڑایا گیا۔ غیر ملکی دوروں پر دوستوں کو جہازوں میں بھر کر لے جایا گیا۔ سرکاری خرچ پرعمرہ کا اہتمام کیا گیا۔ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی گئی۔ وزارتوں کی بندربانٹ میں اہلیت کا خیال نہ رکھا گیا۔ مختلف کارپوریشنوں اور خودمختار اداروں میں سیاسی بنیادوں پر تقرر نامے جاری کئے گئے۔ ایک درجن کے لگ بھگ عمومی سفیروں کا تقرر کرکے انہیں وفاقی وزراء کے برابر مراعات سے نوازا گیا۔ رینٹل پاور پراجیکٹس کے بارے میں ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک کی سفارشات کو نظرانداز کرکے صورت حال کو مشکوک بنا دیا گیا اور اپنے اوپر کرپشن کے الزامات لگوا لئے گئے۔ بغیر تصدیق کے اندھا دھند ممنوعہ بور کے تیس ہزار اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔ بینظیر ٹریکٹر سکیم میں گھپلے کئے گئے۔ سپیکر اور وزراء نے ایک سے زیادہ سرکاری رہائش گاہوں پر قبضہ کیا۔ کراچی میں مزدوروں کیلئے ہائوسنگ کالونی بنانے کیلئے ویلفیئر فنڈ سے 2½ ارب روپے کی زمین خریدی گئی۔ جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت 15کروڑ روپے سے زائد نہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے سکیورٹی انچارج کو O.G.D.C.L کا ایم۔ڈی بنا دیا گیا جبکہ وہ اس عہدہ کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ گریڈ 21 سے 22 میں پروموشن کرتے وقت اہلیت کو نظرانداز کرکے ٹاپ بیوروکریسی کو عدم اطمینان کا شکار کیا۔
آج یہ عالم ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں کرپشن کے چرچے عام ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے 442 ممبران پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں پلاٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ممبران پارلیمنٹ کو کونسی قومی خدمات کے سلسلہ میں قیمتی پلاٹ الاٹ کئے جارہے ہیں؟ وہ تو پہلے ہی ناقابل یقین مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا جناب صدرمملکت اور پورے ملک کے دانشوروں کو علم ہے۔ نادیدہ قوتیں بھی ضرور مانیٹر کرتی ہوں گی۔ جسے اسٹیبلشمنٹ کا نام دے کر گالیاں دی جاتی ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جمہوری حکومتوں کو حکمرانی کا عرصہ مکمل کرنے نہیںدیتی۔ کب تک تماشائی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ سیاستدان اقتدار حاصل کرتے ہی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
کیا موجودہ سیاسی سیٹ اپ کامیابی سے ہمکنار ہوگا؟ اگر حکمران سنجیدہ رویہ اختیارکریں، انصاف قائم کریں، میرٹ کے اصولوں پر عمل کریں، چادر کے مطابق پیر پھیلائیں، ملکی مفاد میں پالیسیاں تشکیل دیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرلیں تو ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور خودکش حملوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
پاکستان مسائل کے طوفانوں کی زد میں ہے۔ موجودہ قیادت کا ٹریک ریکارڈ اور ساکھ سب سے بڑاسوالیہ نشان؟ ہے۔ حکمرانوں میں جن صاحب کو مسٹر کلین سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک معروف معیشت دان نے ایک اخباری مضمون میں لکھا ہے کہ موصوف نے متعدد بار اپنے قرضے معاف کرائے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ 2002ء میں سٹیٹ بنک کے ایک متنازعہ ایس۔آرا۔ او کی وجہ سے ان کی بیگم صاحبہ کے ذمہ 520 ملین روپے کا قرضہ معاف کیا گیاتھا۔حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ جناب آصف علی زرداری سے کسی پاکستانی کو ذاتی عناد نہیں۔ پاکستانیوں کی واضح اکثریت جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے لیکن پچھلے دو سالوں کے دوران نااہل حکمرانوں نے عوام الناس کے ساتھ جو پے درپے بدسلوکی کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام آدمی سابقہ دور حکومت کو یاد کرنے لگا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ حکمران اپنی سمت کو درست کرلیں۔ سندھ کارڈ، جذباتی تقاریر، قلم اور سنگین تذکرے ، عدلیہ سے ٹکرائو اور سیاسی ریلیوں کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ مجھے دکھ ہے کہ حکمران جماعت کے عاقبت نااندیش رہنمائوں اور کارکنوں نے عدلیہ کے قابل احترام ججز کے خلاف سڑکوں پر انتہائی شرمناک نعرے لگائے۔
میں نے حکومت کی کارکردگی کے حوالہ سے صرف مرکزی حکومت کے بارے میں چند سطور تحریر کی ہیں۔ چاروں صوبوں میں ہونے والے کرپشن، ناانصافیوں اور میرٹ کی خلاف ورزیوں پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مورخہ 4 جنوری 2010ء کو بزنس ریکارڈ میں ایک بہت بڑے سکینڈل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ حکومت نوٹس لے کر اپنے آپ کو بدنامی سے بچا لے گی لیکن کل وفاقی وزیر تجارت امین فہیم نے تمام رولز اور پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک کروڑ ٹن استعمال شدہ لیوب اور فرنس آئل امپورٹ کرنے کی اجازت ملتان کی ایک تجارتی فرم کو دے دی ہے۔ جواز یہ بتایاگیا ہے کہ بلوچستان کے ایک ایم۔این۔اے نے سفارش کی تھی۔ 62 سالہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ صرف ایک گھوڑا بم کو لاٹ نہیںماررہا بلکہ درجنوں گھوڑے صرف اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کا کوئی دشمن نہیں وہ اپنی سب سے بڑی دشمن خود ہے۔ جمہوریت کیلئے میری محبت اور جمہوری نظام کی کامیابی کی خواہش اپنی جگہ لیکن مجھے دور دور تک اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔ گھوڑوں کی کوئی لات نشانہ پر لگ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر کوئی مجھے یہ بتائے کہ اُحد کا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو تسلیم کرلوں گا لیکن اگرکوئی کہے کہ فلاں شخص نے اپنی فطرت تبدیل کرلی ہے تو ہرگز یقین نہیں کروں گا۔‘‘
جمہوریت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
سیاست سے نابلد آرمی قیادت سے کسی خیر کی توقع کرنا حماقت ہے۔ جنرل پرویز مشرف ایک سات نکاتی مثبت پروگرام لے کر سیاسی میدان میں اترے۔ دوسرے بہت سے سیاستدانوں کی طرح جناب اجمل خٹک اور عمران خان نے بھی شروع میں ان کے پروگراموں کی تائید اور عملی امداد کی۔ پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں میں حسب روایت توڑ پھوڑ کرکے ایک سرکاری پارٹی بنائی۔ احتساب کا ڈول ڈالا گیا لیکن انجام اس قدر افسوسناک ہوا کہ 8 سالہ دور اقتدار قومی تاریخ کا ایک اور سیاہ دھبہ بن گیا۔
18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجہ میں جوسویلین حکومت مرکز میں قائم ہوئی۔ پوری قوم نے اس جمہوری حکومت سے امیدیں باندھ لیں۔ آغاز بے حد مثبت انداز میں ہوا۔ وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کا انتخاب بلامقابلہ ہوا۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تاکہ اس مرتبہ جمہوریت کاتجربہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے لیکن اقتدار کے نشہ میں بدمست سیاستدانوں نے ایک مرتبہ پھر ہر شعبۂ زندگی کو تلخیوں سے بھردیا۔
تیل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے مہنگائی کا سیلاب لایا گیا۔ آزاد عدلیہ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ایوان صدر کوایک سیاسی جماعت کا ہیڈ آفس اور اقتدار کا سرچشمہ بنا دیا گیا۔ پچھلے ادوار کی حماقتوں اور غلطیوں کو ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا۔ قومی خزانہ کو بے دردی سے اڑایا گیا۔ غیر ملکی دوروں پر دوستوں کو جہازوں میں بھر کر لے جایا گیا۔ سرکاری خرچ پرعمرہ کا اہتمام کیا گیا۔ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی گئی۔ وزارتوں کی بندربانٹ میں اہلیت کا خیال نہ رکھا گیا۔ مختلف کارپوریشنوں اور خودمختار اداروں میں سیاسی بنیادوں پر تقرر نامے جاری کئے گئے۔ ایک درجن کے لگ بھگ عمومی سفیروں کا تقرر کرکے انہیں وفاقی وزراء کے برابر مراعات سے نوازا گیا۔ رینٹل پاور پراجیکٹس کے بارے میں ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک کی سفارشات کو نظرانداز کرکے صورت حال کو مشکوک بنا دیا گیا اور اپنے اوپر کرپشن کے الزامات لگوا لئے گئے۔ بغیر تصدیق کے اندھا دھند ممنوعہ بور کے تیس ہزار اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔ بینظیر ٹریکٹر سکیم میں گھپلے کئے گئے۔ سپیکر اور وزراء نے ایک سے زیادہ سرکاری رہائش گاہوں پر قبضہ کیا۔ کراچی میں مزدوروں کیلئے ہائوسنگ کالونی بنانے کیلئے ویلفیئر فنڈ سے 2½ ارب روپے کی زمین خریدی گئی۔ جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت 15کروڑ روپے سے زائد نہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے سکیورٹی انچارج کو O.G.D.C.L کا ایم۔ڈی بنا دیا گیا جبکہ وہ اس عہدہ کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ گریڈ 21 سے 22 میں پروموشن کرتے وقت اہلیت کو نظرانداز کرکے ٹاپ بیوروکریسی کو عدم اطمینان کا شکار کیا۔
آج یہ عالم ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں کرپشن کے چرچے عام ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے 442 ممبران پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں پلاٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ممبران پارلیمنٹ کو کونسی قومی خدمات کے سلسلہ میں قیمتی پلاٹ الاٹ کئے جارہے ہیں؟ وہ تو پہلے ہی ناقابل یقین مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا جناب صدرمملکت اور پورے ملک کے دانشوروں کو علم ہے۔ نادیدہ قوتیں بھی ضرور مانیٹر کرتی ہوں گی۔ جسے اسٹیبلشمنٹ کا نام دے کر گالیاں دی جاتی ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جمہوری حکومتوں کو حکمرانی کا عرصہ مکمل کرنے نہیںدیتی۔ کب تک تماشائی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ سیاستدان اقتدار حاصل کرتے ہی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
کیا موجودہ سیاسی سیٹ اپ کامیابی سے ہمکنار ہوگا؟ اگر حکمران سنجیدہ رویہ اختیارکریں، انصاف قائم کریں، میرٹ کے اصولوں پر عمل کریں، چادر کے مطابق پیر پھیلائیں، ملکی مفاد میں پالیسیاں تشکیل دیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرلیں تو ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور خودکش حملوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
پاکستان مسائل کے طوفانوں کی زد میں ہے۔ موجودہ قیادت کا ٹریک ریکارڈ اور ساکھ سب سے بڑاسوالیہ نشان؟ ہے۔ حکمرانوں میں جن صاحب کو مسٹر کلین سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک معروف معیشت دان نے ایک اخباری مضمون میں لکھا ہے کہ موصوف نے متعدد بار اپنے قرضے معاف کرائے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ 2002ء میں سٹیٹ بنک کے ایک متنازعہ ایس۔آرا۔ او کی وجہ سے ان کی بیگم صاحبہ کے ذمہ 520 ملین روپے کا قرضہ معاف کیا گیاتھا۔حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ جناب آصف علی زرداری سے کسی پاکستانی کو ذاتی عناد نہیں۔ پاکستانیوں کی واضح اکثریت جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے لیکن پچھلے دو سالوں کے دوران نااہل حکمرانوں نے عوام الناس کے ساتھ جو پے درپے بدسلوکی کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام آدمی سابقہ دور حکومت کو یاد کرنے لگا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ حکمران اپنی سمت کو درست کرلیں۔ سندھ کارڈ، جذباتی تقاریر، قلم اور سنگین تذکرے ، عدلیہ سے ٹکرائو اور سیاسی ریلیوں کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ مجھے دکھ ہے کہ حکمران جماعت کے عاقبت نااندیش رہنمائوں اور کارکنوں نے عدلیہ کے قابل احترام ججز کے خلاف سڑکوں پر انتہائی شرمناک نعرے لگائے۔
میں نے حکومت کی کارکردگی کے حوالہ سے صرف مرکزی حکومت کے بارے میں چند سطور تحریر کی ہیں۔ چاروں صوبوں میں ہونے والے کرپشن، ناانصافیوں اور میرٹ کی خلاف ورزیوں پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مورخہ 4 جنوری 2010ء کو بزنس ریکارڈ میں ایک بہت بڑے سکینڈل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ حکومت نوٹس لے کر اپنے آپ کو بدنامی سے بچا لے گی لیکن کل وفاقی وزیر تجارت امین فہیم نے تمام رولز اور پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک کروڑ ٹن استعمال شدہ لیوب اور فرنس آئل امپورٹ کرنے کی اجازت ملتان کی ایک تجارتی فرم کو دے دی ہے۔ جواز یہ بتایاگیا ہے کہ بلوچستان کے ایک ایم۔این۔اے نے سفارش کی تھی۔ 62 سالہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ صرف ایک گھوڑا بم کو لاٹ نہیںماررہا بلکہ درجنوں گھوڑے صرف اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کا کوئی دشمن نہیں وہ اپنی سب سے بڑی دشمن خود ہے۔ جمہوریت کیلئے میری محبت اور جمہوری نظام کی کامیابی کی خواہش اپنی جگہ لیکن مجھے دور دور تک اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔ گھوڑوں کی کوئی لات نشانہ پر لگ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر کوئی مجھے یہ بتائے کہ اُحد کا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو تسلیم کرلوں گا لیکن اگرکوئی کہے کہ فلاں شخص نے اپنی فطرت تبدیل کرلی ہے تو ہرگز یقین نہیں کروں گا۔‘‘
جمہوریت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد