
اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کر رہے ہیں، اقتصادی سروے کا موضوع برآمدات، ایکویٹی، ایمپاورمنٹ، ماحولیات اور توانائی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ اقتصادی سروے 17 ابواب پر مشتمل ہے جس کا مقصد گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کو واپس ترقی کی جانب لے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ختم مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، -2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی، اگر یہ حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا؟ کیوں کہ ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ میں 6 ہزار 400 ارب ڈالرز کی کمی ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ معیشت میں جو گراوٹ ہورہی تھی وہ رک چکی ہے اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے، سال 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ سال جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔ انہوں ںے کہا کہ تجارتی خسارہ 2018 میں 30.9 ارب ڈالرز سے گزشتہ سال 39.1 ارب ڈالرز جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے 17.5 ملین ڈالرز تک جا پہنچا، غیر ملکی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالرز سے سکڑ کر 1.9 ارب ڈالرز رہ گئی اور پبلک پالیسی ریٹ 6.5 فیصد سے پونے 14 فیصد ملا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرض ہر سال 129 ارب روپے کے حساب سے بڑھ رہا تھا جو 2018 میں 1148 ارب چار سال کی قلیل مدت میں 2 ہزار 467 ارب تک جا پہنچا یعنی اس میں 330 سالانہ اضافہ ہوا، سال 2018 میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 63.7 فیصد تھا وہ 73.9 فیصد تک جا پہنچا جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے جب کہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔سینیٹر اسحاق ڈار نے اس کی وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا اس سب کچھ کے بعد تابوت میں آخری کیل جو ثابت ہوئی اس نے پاکستان کے بھروسے اور ساکھ کو متزلزل کر کے رکھ دیا اگر آپ نے کوئی خود مختار وعدہ کیا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا ہوتا ہے اور ہمیں اسی طرح پورا کرنا چاہیے لیکن جب دیکھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں تو وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ انہیں ریورس کردیا جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اس بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے.عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا.عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا. پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا .جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔
واضح رہے کہ اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک سالانہ فلیگ شپ اشاعت ہے جو اہم معاشی اشاریوں، ترقیاتی پالیسیوں، حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی شعبہ جاتی کامیابی کے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔ ہر سال آئندہ مالی سال کا بجٹ ٌپیش کیے جانے سے ایک روز قبل اقتصادی سروے جاری کیا جاتا ہے۔