بجٹ میں منتخب ارکان کے لیے فنڈز
مالی سال 2023-24ءکے لیے وفاقی بجٹ کل پیش ہورہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی اسمبلی کے سامنے بجٹ پیش کریں گے۔ حکومت کی طرف کہا تو یہی جارہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ عوام دوست ہوگا لیکن ایسی اکثر باتیں محض دعوو¿ں سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہوتی ہیں۔ یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ ترقیاتی بجٹ میں 20ارب روپے آزاد ارکان پارلیمان اور اتحاد میں شامل چھوٹی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی یا ایم این ایز کی ترقیاتی سکیموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس میں سے 75 کروڑ روپے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) اور 55کروڑ روپے (ایس ڈی جیز) کے فنڈ سے دیے جائیں گے۔ یہ ایک نامناسب روش ہے جسے ترک کیا جانا چاہیے کیونکہ منتخب ارکان کو فنڈز دینے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایک لالچ کے ذریعے ان لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے ہوئے ہے۔ اگر ایسے فنڈز دینے ضروری ہے تو پھر یہ فنڈز ہر رکن اسمبلی کو ملنے چاہئیں کیونکہ ارکانِ اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور انھیں جو فنڈز دیے ہیں وہ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر ہی جاری کیے جاتے ہیں۔ کچھ ارکان کو فنڈز دینے اور کچھ کو نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کے حکومت سرکاری خزانے سے رقم خرچ کررہی ہے اور دوسری حلقے کے عوام کو محروم رکھ رہی ہے اور وجہ اس کی بظاہر یہ ہے کہ جس حلقے کو فنڈ مل رہے ہیں وہ حکومت کے حمایتی رکن اسمبلی کا ہے اور جسے نہیں مل رہے وہاں کا رکن اسمبلی حکومت مخالف ہے۔ سرکاری خزانہ پورے ملک کے عوام کے لیے ہے، صرف حکومت کے حامی ارکان کے حلقوں میں رہنے والوں کے لیے نہیں۔