خواجہ نورالزمان اویسی
(2) تحفظ و جان و مال شعور
اصلاح معاشرہ کے لیے قرآن مجید صرف فکری اصلاح پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان تمام چیزوں کا اجمالاًیا تفصیلا ً تذکرہ بھی کرتا ہے جو معاشرتی بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی اہمیت رکھتی ہیں۔ معاشرتی بگاڑ کی عملی صورت یہ ہی ہو تی ہے کہ لوگوں کی جان و مال اور ان کی عزت محفوظ نہ رہے۔ قرآن مجید ان تمام چیزوں کا تذکرہ بڑے التزام اور اہتمام سے کرتا ہے۔ انسانی جان کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہو ئے قرآن مجید میں فرمایا گیا : ترجمہ ” جس نے کسی شخص کو کسی قتل کے بدلے میں یا زمین میں فساد برپا کر نے کے (جرم) کے علاوہ ( کسی اور وجہ سے ) قتل کر دیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے اسے موت سے بچایا ، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا “۔اس سے واضح ہو اکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک بے گناہ انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ تو قرآنی تعلیمات پر ایمان رکھنے والا بے گناہ انسانوں کو قتل نہیں کرے گا۔ مومن کا قتل اللہ تعالی کے نزدیک کس قدر مبغوض ہے اس کا اندازہ اس آیت کریمہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ترجمہ :” اور اگر کسی مومن کو کوئی شخص جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے “۔دوسروں کی مال کی حرمت کرتے ہو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :” اور تم ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاﺅ اور نہ حاکموں کے پاس اس مقصد سے رجو ع کرو کہ تم علم رکھتے ہوئے بھی لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طریقوں سے ہتھیالو “۔قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ دوسروں کا مال کھانا دراصل اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: ” اے ایمان والوں آپس میں اپنے مال ناجائز طریقے سے نہ کھاﺅ۔
مگر یہ کہ وہ باہمی رضامندی سے تجارت ہو اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بڑی مہربانی فرمانے والا ہے “۔ قرآن مجید ہر انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے اور ان تمام تر راستوں کو بند کرتا ہے جو انسانی حرمت کو پامال کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔کیونکہ جس معاشرے میں انسانی جان اور مال کی حرمت کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ ہی معاشرہ پر امن اور صلح و آشتی کا گہوارہ ہو گا۔