جمعة المبارک 23 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 8 جون 2018ء
6 سالہ پاکستانی بچی لائبہ کا ورلڈ گنیز بک میں نام درج ۔ کاملہ شمسی ویمن پرائز فار فکشن ایوارڈ جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئی
اقبال نے یونہی تو ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ والی بات نہیں کی تھی۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے انعامات سے نوازا ہے کہ ہم اگر ایمانداری سے کام لیں تو دنیا کی بڑی بڑی نعمتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو کراچی کی کم سن بچی 6 سالہ لائبہ وہاج ہیں جنہوں نے ٹاور آف ھنوئی کا میتھ پزل (حسابی معمہ) ایک منٹ 13 سیکنڈ میں حل کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ کام انہوں نے 2 منٹ 30 سیکنڈ کا ریکارڈ توڑ کر کیا جس پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں مقیم پاکستانی خاتون مصنفہ کاملہ شمسی کی کتاب ”ہوم فائر“ نے برطانوی ادبی دنیا کا مشہور ایوارڈ ویمن پرائز فکشن جیت لیا ہے۔ یوں انہوں نے انگریزی ادب میں پاکستانی ادیبہ کی حیثیت سے اپنا اور اپنے وطن کا نام روشن کیا، یہ تو صرف نمونے ہیں۔اگر ہمارے ہاں ٹیلنٹ کو سامنے آنے دیا جائے آگے بڑھانے کے وسیع مواقع دستیاب ہوں تو ایسے کئی اور جواہر دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر سکتے ہیں۔ بس صرف حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جو ہمارے سفارشی، اقربا پروری کے مارے معاشرے او ر کلچر میں ممکن نہیں۔ اگرحکمرانوں کی تھوڑی سی سرپرستی مل جائے تو ایسے کئی اور کارنامے گنیز بک کے صفحات میںجگہ پا کر امر ہو سکتے ہیں....
٭....٭....٭
ہالینڈ کے وزیراعظم نے فرش پر گری کافی خود صاف کی
ہمارے ہاں تو مڈل پاس کرنے کے بعد لوگ کوئی کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں توہین محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو ہالینڈ کے وزیر اعظم کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے گری ہوئی کافی خود وائپر اٹھا کر صاف کی۔ ہمارے معاشرے میں عام ناخواندہ ہوں یا خواندہ مرد حضرات خاص طور پر بچپن سے ہی اپنا کام گھر کی خواتین سے کرانے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر غسل خانے میں نہانے بھی جائیں تو تولیے بھی گھر والوں سے طلب کرتے ہیں۔ پیاسے مر جائیں گے مگر پانی خود اُٹھ کر نہیں پئیں گے۔ وہ بھی ماں، بہن ، بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لا کر انہیں پلائے۔ یہ تو میخانہ یورپ کے انداز نرالے ہیں کہ وہاں سب اپنا اپنا کام خود کرتے ہیں۔ اپنا کام کرتے ہوئے کس کو موت نہیں پڑتی۔ سکول لائف سے ہی بچے خود کفالت کی طرف راغب ہوتے ہیں 16 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے خود کفیل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اُلٹ چکر ہے یہاں 26 سال تک بیٹے والدین پر ہی خوراک لباس اور تعلیم کا بوجھ ڈالے رہتے ہیں پھر ان کی شادیوں کا بار علیحدہ والدین نے اُٹھانا ہوتا ہے۔ اب ہالینڈ کے وزیر اعظم نے عملی طور پر اپنا کام خود کرنے کی یہ خوبصورت مثال پیش کی ہے تو اس سے کم از کم ہمارے نوجوانوں کو ہی سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اپنے کام خود کرنے کی کوشش کرناچاہئے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کچھ کہا نہیں جا سکتا انہیں ہدایت کی دعا دی جا سکتی ہے۔ وہ تو سواے باتیں اور کرپشن کے کچھ کرنے جوگے نہیں رہے۔ البتہ عوام بھی خود کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت اپنا لیں تو انہی کا بھلا ہو گا کام کرنے سے عزت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نچلی کورٹس کا بھی دورہ کریں: شاہد آفریدی
شاہد آفریدی سادہ مزاج انسان ہیں۔ انہوں نے آج کل سماجی خدمت کے میدان میں بھی کام کرنا شروع کیا ہے۔ ان سے قبل بھی بہت سے کھلاڑی اس میدان میں قدم رکھ چکے ہیں۔ مگر کامیابی عمران خان کو ملی۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال بنا کر اپنا مشن پورا کر دکھایا۔ پھر اسکے بعد جب سے وہ سیاست میں آئے ان کی جو محبت عوام کے دلوں میں تھی وہ بھی سیاسی تقسیم کی زد میں آ گئی۔ باقی کھلاڑی ہوں یا فنکار جو بھی خدمت کا جذبہ لے کر میدان میں آیا وہ یا تو سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا یا کامیابی اس کے قدم نہ چوم سکی۔ اب شاہد آفریدی نے گزشتہ روزسماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر چیف جسٹس کے کاموں کی تعریف کرتے ہوئے ان کے اصلاحی اقدامات کو سراہا اور ساتھ ہی مشورہ دیا ہے کہ چیف صاحب جہاں اتنے کاموں کی درستگی کر رہے ہیں وہ ذرا نچلی سطح کی عدالتوں کا بھی دورہ کریں۔ اور ذرا دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ان کی یہ بات بجا ہے۔ لوگ بھی اس بارے میں خواہش رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس نچلی عدالتوں کے معاملات بھی ضرور دیکھیں وہاں کا بھی دورہ کریں۔ انصاف کی فراہمی میں نچلی عدالتوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر یہ عدالتیں درست ہوں تو لاکھوں کیس نچلی سطح پرہی احسن طریقے حل ہو سکتے ہیں جس سے اوپر والی عدالتوں پر بھی کام کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ امید ہے چیف جسٹس صاحب پہلی فرصت میں شاہد آفریدی کی یہ معصوم خواہش ضرور پوری کریں گے اور عوام کی دعائیں لیں گے....
٭....٭....٭
امریکی صدر کا مسلم سفیروں کو افطار ڈنر ، مسلم تنظیموں کا بائیکاٹ
امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں کو وائٹ ہاﺅس میں پہلا افطار ڈنر دیا گیا۔ جس میں ان کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کی تمام مسلم تنظیموں نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔ اس لئے اس میں وہ رونق اور گہما گہمی نظر نہیں آئی جو اس اعلیٰ سطحی تقریب میں ہوتی ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے اندر ہونے والی اس تقریب میں عرب ممالک کے سفیروں کے علاوہ صرف 50 گنے چنے دیگر افراد نے شرکت کی۔ اس پر صدر ٹرمپ کو افسوس تو ہوا ہو گا کہ کھانے پینے کے اتنے بڑے پیمانے پر کئے گئے انتظامات ضائع ہو گئے اور خرچہ الگ برداشت کرنا پڑا۔ امریکی صدر کے اس افطار کے جواب میں بائیکاٹ کرنے والی مسلم تنظیموں نے بھی بڑا زبردست قدم اٹھایا۔ یہ لوگ وائٹ ہاﺅس کے اندر تو نہیں گئے مگر ان تنظیموںکے سینکڑوں ارکان نے وائٹ ہاﺅس کے باہر دسترخوان سجایا۔ وائٹ ہاﺅس کے باہر بیٹھ کر افطار کیا اور ٹرمپ پالیسیوں کیخلاف خوب نعرے بازی کی ۔یوں انہوں نے اپنا احتجاج مو¿ثر طریقے سے ریکارڈ کرایا۔ اب معلوم نہیں وائٹ ہاﺅس کے اندرافطار ڈنر میں شریک عرب و دیگر مسلم ممالک کے سفیروں نے امریکی صدر سے مسلم ممالک کے اورمسلم تارکین وطن کے کیخلاف ان کی ظالمانہ پالیسیوں پر لب کشائی کی یا صرف روزہ کشائی پر ہی ساری توجہ دئیے رکھی۔ یہ دوستانہ ماحول زیادہ بہتر ا ور آسان ہوتا ہے اپنی بات کہنے کیلئے۔ دوسرے ممالک کے سفیر اس سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔کاش مسلم سفیر بھی فائدہ اٹھاتے۔ ہمارے سفیروں کو اور کچھ نہیں تو کم از کم دوسرے سفیروںسے سفارتکاری ہی سیکھنی چاہئے۔