یہ کالم اس امر کی گواہی ہے کہ میرے اخبار کی مقبولیت قائم ودائم ہے، ایک زمانے میں ،یہ سن سن کر کان پک گئے تھے کہ لاہور میں ایک سے ایک بڑھ کر اخبار آرہے ہیں، اس سے نوائے وقت کی ریڈرشپ محدود ہو جائے گی، نئے اخبار ضرور آئے، ان کی اشاعت کتنی ہوئی یا نہیں ہوئی مگر میرے اخبار کی ریڈرشپ کبھی کم نہ ہو سکی، پھر کہا جا نے لگا کہ نوائے وقت تو مجید نظامی کا نام ہے، دنیا سے ان کے پردہ کر جانے کے بعدیہ اخبار اپنا وجود تک برقرار نہیں رکھ سکے گا، ان حاسدان تیرہ باطن کے منہ میں خاک، یہ سب دعوے جھوٹے نکلے، اس لئے جھوٹے نکلے کہ میں نے اسی اخبار میں تحریک پاکستان کے ایک گم شدہ ہیرو مستری صدیق کے بارے میں ایک کتاب کا ذکر کیا، یہ کتاب لکھنے والا بھی کوئی معروف شخص نہیں اور جس پر لکھی گئی ہے، وہ بھی زمانے کی دست بردکا شکار ہو کر لوگوں کے حافظے سے محوہو گیا تھا۔ مگر ادھر میں نے لکھا کہ رانا نذر الرحمن یہ کتاب ہدیہ کے طور پر تقسیم کر رہے ہیں، میں کیا بتاﺅں خلق خدا کس طرح ا س کتاب کے حصول کے لئے ٹوٹ پڑی، رانا صاحب کا فون تھا کہ بجتا چلا جا رہاتھا اور وہ کتاب لینے کے خواہش مندوں کے پتے لکھتے جاتے تھے، دن کے تیسرے پہر وہ فون سنتے اور پتے لکھتے نڈھال ہو گئے، پھر انہوںنے محلے کے ایک نوجوان کواس ڈیوٹی پر بٹھا دیا اور مجھے تجویز دی کہ اس بڑھاپے میں ان سے اس قدر کالیں نہیں سنی جاتیں، اس لئے ان کا لاہور کاایڈریس چھاپ دوں تاکہ جس کو کتاب درکار ہو، وہ خود آ کر لے جائے۔مگر ان کافون بھی مسلسل بجتا رہا اور گھر پر آنےوالوں کا بھی تانتا بندھ گیا۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، پنڈی اسلام آباد سے اس قدر فون آئے کہ رانا صاحب نے کتابیں کار کی ڈگی میں ڈالی اور تین دن اسلام آباد میں پڑاﺅ کر کے لوگوں تک بدست خود کتابیں پہنچائیں۔
میں خود ششدر تھا کہ یا اللہ! تحریک پاکستان میں ابھی تک لوگوں کے دل ودماغ میں عشق موجود ہے ، اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ نوائے وقت نے اس مشن کو ہمیشہ زندہ رکھا اور نظریہ پاکستان کی مشعل فروزاں رکھی۔مگر جس طرح لوگ ایک گم گشتہ کردار پر لکھی گئی کتاب کے لئے ٹوٹ پڑے، اس سے میں نوائے وقت کی مقبولیت کابھی قائل ہو گیا۔
میرے اخبار کے حاسدان کے منہ میں خاک۔ یہ ااخبار آج بھی نظریاتی طبقے کا پہلااور بڑااخبار ہے۔یہ اعزاز کسی اور معاصر کو حاصل نہیں ہو سکا۔ نوائے وقت نے اس نظریئے کی آبیاری تحریک کارکنان پاکستان ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے جاری رکھی، آخری برسوں میں میرے مرشد نظامی گھر سے نکلتے تو پہلے نظریہ پاکستان کے دفتر تشریف رکھتے اور پھر اخبار کے دفتر کا رخ کرتے۔
اس جذبے اور لگن اور مشن نے معاشرے میں نوائے وقت کی ساکھ کوزندہ و تابندہ کیا۔
اور کیا بتاﺅں کہ کس طرح ہفتے دس دنوںمیں مستری محمد صدیق والی کتاب کا ایک ہزار کا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہو گیا، اب کئی روز پہلے رانا صاحب نے پرنٹر کو مزید ایک ہزار کاپیوں کی اشاعت کی ہدائت کر دی ہے، میرا خیال ہے کہ کتاب ان کے گھر آنےوالی ہے،اس لئے میں ایک نظریاتی صحافی ہونے کے ناطے یہ پیغام دہرانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جو صاحبان ابھی تک کتاب کے حصول میں کامیاب نہیںہوسکے، وہ ہر گز مایوس نہ ہوں۔
ابھی تو رانا صاحب کی بیٹری چارج ہوئی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ نظریہ پاکستان پر مستند کتابوں کی فہرست لاﺅ،تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنوں کے بارے میں جہاں سے بھی لٹریچر مل جائے ، وہ اپنی استطاعت کے مطابق اسے خرید کر لوگوںکو ہدیہ کریں گے۔
اور ان کی اہم تریں تجویز یہ ہے کہ وہ نوائے وقت کے نظریاتی کردار پر ایک کتاب اپنی نگرانی میںلکھوانا چاہتے ہیں تاکہ نئی نسل کے لئے تاریخ کے اس روشن رخ کو محفوظ رکھا جاسکے۔
میں رانا صاحب کے ان تابناک جذبوں کو سلام پیش کرتا ہوں،آج کے دور میں تو ہر ایک کو نفسا نفسی پڑی ہوئی ہے۔خود غرضی انتہا پر ہے ، اجتماعی مفاد کی تو کوئی بات تک نہیں کرتا مگر یہ نوے سال کا بوڑھا ، میںنے بوڑھا لکھ دیا، ان کے سینے میں جوان اور تپتے، دھڑکتے دل کو دیکھ کر تو کوئی انہیں بوڑھا کہنے کو تیار نہیں۔چلئے یہ نوے سالہ نوجوان اپنے بچپن کے دور سے آگے نہیں بڑھا، وہ تحریک پاکستان والے لمحات میں اپنے آپ کو ہر دم، تازہ دم محسوس کرتا ہے۔
لاہور شہر کا ایک طویل دور رانا نذالرحمن کی بلا شرکتے غیرے حکمرانی کا دور ہے، وہ اس میگا شہر کی توانا آواز بن کر شہر کے سیاسی افق پر برسوں چمکتے رہے، ہر طرف نعرے گونجتے تھے کہ شہریان لاہور کا بے باک ترجمان، رانا نذرالرحمن۔وہ ہر حال میں اپوزیشن کی سیاست کرتے رہے، انہوں نے مفادات کی بنا پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ان کا سمن آباد کا گھر نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاست کا گڑھ تھا، میں نے اسی گھر میں نوائے وقت کے لئے ایم حمزہ کے درجنوں انٹرویو کئے۔
میں نے رانا صاحب سے پوچھا ہے کہ میرے مرشد نظامی نے آپ کے انارکلی پلازے رانا چیمبرز کے سامنے ایک بلڈنگ میں ندائے ملت شروع کیا، آپ کے ہاں ان کے لئے کوئی جگہ خالی نہ تھی۔رانا صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بلڈنگ میں ایک فراخ کمرہ ان کو پیش کیا تھا جس میں اخبار کا ڈارک روم بنایا گیا تھا۔
راناصاحب کا تذکرہ کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ، ضروری نہیں کہ ان کی نیکیوں اور اچھائیوں کاتذکرہ اسوقت کیا جائے جب وہ اس دنیا میںنہ رہیں، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔اچھے لوگوں کی اچھائی کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، اس سے ان کو حوصلہ ملتا ہے اور طمانیت کااحساس ہوتا ہے ۔
رانا صاحب کی آپ بیتی بھی منظر عام پر آ چکی ہے، یہ ہزار صفحات سے اوپر ہے، رانا صاحب نے یہ کتاب بھی بلا قیمت تقسیم کی ہے اور اب اس کا بھی نیا ایڈیشن زیر طبع ہے۔ یہ کتاب پچھلی پون صدی کے واقعات کااحاطہ کرتی ہے، رانا صاحب جس طرح بے لاگ گفتگو کرتے ہیں،اس طرح انہوںنے تاریخ کا تذکرہ بھی بلا کم وکاست کیا ہے، اس لئے اس سے چبھن بھی محسوس ہوتی ہے مگر تاریخ تو تاریخ ہے ، اسے تروڑا مروڑا نہیںجا سکتا اور اگر کسی نے اپنی زندگی میں ہی تاریخ بیان کر دی ہواور اس میں کسی غلطی کاا حتمال ہو تو مصنف کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے، میرا خیال نہیں کہ رانا صاحب کے بیان کردہ ہزاروں واقعات اور مشاہدات پر کسی نے کوئی انگلی اٹھائی ہو۔
رانا صاحب نے مجھے چیلنج دیا ہے کہ تم پکے نو ائے وقتیے ہو توا س اخبار کا ایک انسائیکلو پیڈیا مرتب کرو تاکہ ہماری پون صدی کی تاریخ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں ریفرنس کا کام دے سکے۔ اور یہ تاریخ سند کا درجہ بھی رکھے گی کیونکہ اس کو اخبار کی خبروں اور تبصروں کی بنیاد پر لکھا جائے گا۔ اور اس انسائیکلو پیڈیا کو نظریاتی صحیفہ کا درجہ حاصل ہوگا۔
آخر میں رانا صاحب کی یہ درخواست دوبارہ، کہ ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی اور مستری صدیق والی کتاب حاصل کر نے کے لئے براہ کرم انہیں گھر کے پتے پر خط لکھئے، فون پر ان کی ادھیڑ عمری کاامتحان نہ لیں۔ اگر آپ کی خواہش ہو کہ ان کی آپ بیتی بھی لینا چاہتے ہیں تو خط میں اس کا تذکرہ بھی ضرور کیجئے۔ ان کا ایڈریس ہے، 32-B، ٹیک سوسائٹی کینال روڈ بالمقابل ڈاکٹرز ہسپتال لاہور اور فون نمبر0300-4161200۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024