بجٹ پر میں کیا تبصرہ کروں کہ مجھے حساب کتاب نہیں آتا۔ میں تو ان گنت کا قائل ہوں۔ اللہ دیتا ہے تو بغیر حساب دیتا ہے۔ کبھی اللہ سے مشورہ کر کے بجٹ بنائیں بلکہ رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ سے پوچھ کر بنائیں۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ رزق اللہ کی طرح تقسیم کرو۔ اس نے کسی کو بہت دے دیا کسی کو دیا ہی نہیں کسی کو الٹا دو چار تھپڑ لگا دیے۔ پھر کہا کہ اب رسول کریمؐ کی طرح تقسیم کرو۔ اس نے ہر کسی کو برابر برابر دے دیا۔ اور کہا کہ دنیا میں دیکھ لو اور عہد رسالتؐ میں دیکھ لو۔ لگتا ہے جو بھی حکمران بنتا ہے ظل الٰہی بن جاتا ہے۔ عاشق رسولؐ نہیں بنتا۔
عظیم مزاح نگار مشتاق یوسف نے کہا کہ جھوٹ تین قسم کے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ تو یہ تیسرا کالا جھوٹ ہے۔ سب حکومت مخالف بجٹ کو الفاظ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہتے ہیں۔ پرویز رشید نے کہا کہ عمران کی تنقید بلا جواز ہے۔ پہلے وہ بجٹ تو پڑھ لیں۔ کتابوں کی تقریب میں ہم سب پڑھے بغیر بہت دلفریب گفتگو کرتے ہیں جس دن پڑھ لیں تو گفتگو میں چاشنی ہی نہیں ہوتی۔ کتاب پڑھے بغیر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ پڑھ لیں تو جھوٹ بولنا بھی مشکل ہو جائے۔ پرویز رشید ہم میں سے ہے لہٰذا بات خوب کی ہے۔ بجٹ غریب دوست نہیں ہے۔ امیر دشمن بھی نہیں ہے۔ یہی بات ہر بجٹ کے لئے کہی جاتی ہے۔ حکومتی اور سرکاری لوگ تعریف کرتے ہیں۔ اپوزیشن والے تنقید کرتے ہیں۔ جو باتیں زرداری بجٹ پر شرمیلا فاروقی، رحمان ملک، ڈاکٹر قیوم سومرو کرتے تھے وہی باتیں نواز شریف بجٹ پر رانا مشہود زعیم قادری رانا ارشد کرتے ہیں۔ میں نے پہلے سندھی سیاستدان اور پھر پنجابی سیاستدان کی مثال دی ہے۔ شاہ محمود قریشی، چودھری پرویز الٰہی اور پیر پگاڑا سے اس بجٹ کی تعریف کرا کے کوئی دکھائے۔
چودھری پرویز الٰہی نے بجٹ کو مہنگائی بم قرار دیا ہے۔ کسان دشمن کہا ہے اور ڈٹ کر کہا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے جو کچھ کہا وہ مزاحمتی پالیسی کا عکاس ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مزاحمت میں بھی مفاہمت ہوتی ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ مفاہمت میں بھی مزاحمت ہوتی ہے۔ بلاول کے ساتھ اس کے روابط کے لئے یہی پالیسی ہے۔ اپنی بیوی / بی بی بے نظیر بھٹو کے لئے بھی یہی پالیسی تھی۔ اللہ بلاول کی حفاظت کرے۔ دل میں کہو آمین۔ شہید بی بی کو بہت منع کیا گیا کہ وہ پاکستان نہ جائیں مگر اسے اپنے والد بھٹو صاحب کے مشن کو پورا کرنا تھا۔ بھٹو صاحب اپنے ’’دوستوں‘‘ کی باتوں میں آ کے وڈیروں اور کرپٹ خوشامدیوں کی سازشوں کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے۔ اب بلاول کو بھی منع کیا گیا مگر وہ اپنی والدہ کا مشن پورا کرنے کے لئے آ گیا ہے۔ وہ پاکستان میں آ ہی گیا ہے تو اپنے والد بزرگوار کے ’’مشن‘‘ کو آگے بڑھائے۔ ورنہ وہ خود بہت آگے بڑھ جائے گا۔ نواز شریف کے حکومتی دوست ’’صدر‘‘ زرداری نے بجٹ کے خلاف سب سے بھونڈی بات کی ہے۔ یہ مفاہمت ہے یا مزاحمت ہے۔ یقیناً اعظم ملک کو پتہ ہو گا۔ اس کی ایک تحریر کا عنوان ہے ’’پیپلز پارٹی کا گوربا چوٹ‘‘ زرداری خوش کیوں ہے۔
ایک تو بجٹ تقریر پڑھنا ظلم ہے بلکہ جرم ہے۔ اسحاق ڈار اترایا پھرتا ہے کہ میں وزیر خزانہ ہوں۔ پاکستان میں خزانہ تو نہیں ہے۔ وزیر خزانہ موجود ہے۔ خارجہ پالیسی تو نظر نہیں آتی۔ وزیر خارجہ ہے۔ اور وہ بھی پاکستان میں آج کل نہیں ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھا۔ یہی عمران کا وزیر خارجہ ہو گا۔ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔ لگتا ہے شاہ محمود نے اپنا نام شاہ محمود تبدیلی رکھ دیا ہے۔
اسحاق ڈار بجٹ کے لئے کچھ پریس بریفنگ دے رہے تھے۔ غصے میں آ گئے۔ جبکہ غم کرنا چاہئے تھا۔ غم غصے سے بہتر ہے۔ اس کی تشریح ڈار صاحب کر دیں تو میں کہہ دوں گا کہ بجٹ نہ برا ہے نہ اچھا ہے۔ بس بجٹ ہے؟ ہر حکومت کا پاکستان میں بجٹ ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ ایسا ویسا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نواز شریف کے لئے موقع اچھا ہے۔ وہ وزیر خزانہ بھی اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنا دیں۔ سرتاج عزیز پہلے وزیر خزانہ تھا پھر وزیر خارجہ بنا۔ حنا ربانی کھر وزیر خزانہ تھی۔ پھر وزیر خارجہ بن گئی۔ اس بجٹ کے بعد تو وزیر خزانہ کا حق ہے کہ وزیر خارجہ بن جائیں۔ نواز شریف کو وزیر خارجہ کے لئے کام کا آدمی نہیں مل رہا۔ تو گویا جتنے وزیر شذیر اب ہیں وہ نام کے ہیں بلکہ کس کام کے ہیں؟ صرف وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ہیں جو صحیح معنوں میں وزیر ہیں۔ وہ اپنے وزیراعظم کے سچے اور وفادار دوست ہیں۔ کہا گیا کہ دوست وہی ہے جو اپنے دوست کو اس کی غلطیوں سے آگاہ کرتا ہے۔ چودھری صاحب اپنی عزت نفس کو زندہ رکھتے ہیں اور نواز شریف کی حکومتی عزت نفس کو بھی قائم دائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی ان کی سیاست ہے۔ شہباز شریف ان کے دوست ہیں اور وہ شہباز شریف سے کبھی خفا نہیں ہوئے۔ وہ دونوں مل کر نواز شریف کا بھلا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب نڈر آدمی ہیں مگر ڈار صاحب ڈر گئے۔
اسحاق ڈار صحافیوں سے کیوں ناراض ہوئے۔ مجھے معلوم ہے مگر چونکہ یہ بات خبر نہیں بنی۔ اس لئے میں بھی اسے ’’خوشخبری‘‘ نہیں بنائوں گا۔ مگر کسی سوال سے الجھ کر خفا ہونا سیاستدان کا کام نہیں ہے۔ اور بھی دنیا والے بجٹ پر اختلافی بات کر رہے ہیں تو کیا ڈار صاحب خفا ہی رہیں گے؟ خوش نہیں ہوں گے مگر وہ اندر سے بہت خوش ہیں؟ نجانے سب وزیر خزانہ بجٹ پیش کر کے خوش کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ غریب لوگ ملازم لوگ اور پنشن پر گزارہ کرنے والے بیمار بوڑھے ناخوش ہی رہتے ہیں۔ بے چارے عام لوگ؟
ڈار صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ گستاخ صحافی کون ہے۔ اسے باہر نکال دو۔ وہ یہ تو سوچیں کہ نواز شریف آج تک صحافیوں سے ناراض نہیں ہوئے۔ وہ ناراضگی دل میں ڈال لیتے ہیں اور مناسب وقت پر بدلہ لیتے ہیں۔ نواز شریف سے رشتے داری سے کچھ تو سیکھ لیں۔ ڈار صاحب کی پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بڑی مشکل سے لایا گیا ہو گا تو پھر ان کو بلاتے کیوں ہو؟ یہ تو بجٹ ناراضگی ہے۔ ڈار صاحب کو ڈر کس بات کا ہے؟ کبھی تو یہ ہو کہ صحافی اپنی ناراضگی پر قائم رہیں۔ اسحاق ڈار نے معافی مانگ لی اور بات ختم ہو گئی۔ یہ سیاستدان معافی فوراً اور بہت مانگتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نواز شریف عمران خان ’’صدر‘‘ زرداری الطاف حسین پرویز خٹک قائم علی شاہ وغیرہ وغیرہ نے عوام سے معافی مانگی ہے اور بار بار مانگی ہے۔ اس کا تعلق بھی باری سے ہو گا۔ اکثر سیاستدان تو معافی مانگنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ مانگنے والی چیز مانگتے ہیں۔
بات بات پہ غصے میں آ کر لڑنے بھڑنے والا اندر سے ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ اور وہ غلط ہوتا ہے۔ آخر ڈار صاحب کو ڈر کس بات کا ہے۔ وہ غریبوں اور عام لوگوں کو پہلوں کی طرح ڈرانے کے لئے آئے ہیں۔ ڈرانے والے ڈرے ہوئے ہیں۔ ڈار اور ڈر کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ایک ڈاروں وچھڑی کونج بھی ہوتی ہے مگر ڈار صاحب تو ڈاروں کدی نہ وچھڑی کونج کی طرح ہیں۔
آخر میں ایک واقعہ۔ ہمارے گھر میں کچن سنبھالنے والی بچی ارم بہت اچھی ہے۔ وہ میری پوتی نعتیہ اور نواسی تعبیر کی طرح مجھے ابو جی کہتی ہے۔ اس نے مجھ سے گھر کی کسی چیز کے لئے پچاس روپے مانگے۔ میرے پاس ایک ہزار کا نوٹ تھا۔ وہ دو سو روپے خرچ کر کے آ گئی۔ میں نے ارم سے کہا کہ تو ڈیڑھ سو روپے کے لئے میری مقروض ہو۔ اس نے بہت مزیدار بات کی کہ ابو جی۔ میں آپ سے لے کے آپ کو واپس کر دوں گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024